راشد حسین اور دو مکار ریاستیں ۔ ولید زہری

215

راشد حسین اور دو مکار ریاستیں

ولید زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں ریاست کے جانب سے کریک ڈاؤن اور بربریت کی جو تازہ لہر 2008 میں شروع ہوئی اور آگے چل کر ریاست نے مقامی دلالوں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ قائم کئے، جنہوں نے پیسوں کے عوض کئی نواجوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا اور کئی آزادی پسندوں کے گھروں کو جلا کر انکی خاندان کو نشانہ بنایا ایسے کئی واقعات ہوئے، جس سے بلوچستان کے کونے کونے میں ریاست نے ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ یا قتل کیا ہو۔

بلوچستان کے دیگر علاقوں کے طرح ریاست نے خضدار میں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا، جس میں بلوچ سیاسی کارکن سمیت انکی فیملیز ریاست کا نشانہ بنے اسے طرح گذشتہ سال 26 دسمبر 2018 کو شارجہ سے لاپتہ ہونے والا بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کا خاندان بھی اس بربریت کا نشانہ بنا، جن میں راشد کے دو کزن دو ماموں اور ایک بھائی شامل ہیں جو ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور راشد حسین کے ایک اور بھائی کو کچھ سال قبل حب چوکی سے اغواء کرکے 18 دن قید میں رکھ کر انسانیت سوز تشدد کے بعد رہا کردیا گیا تھا اسکے علاوہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے انکے گھر پر ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا گیا اور کئی بار گھر میں گھس کر گھر کو آگ لگانے کے واقعات پیش آئے-

راشد حسین کے خاندان اور رشتے داروں کی زمین، دکانیں، گاڑیاں ریاستی اہلکاروں نے قبضے میں لیکر انہیں خضدار اور پھر انکے آبائی گاؤں زہری سے نکلنے پر مجبور کردیا، جس کے باعث انہوں نے اپنا بچا کچھا سب دبئی میں لگا کر محنت مزدوری کرنے لگے اور وہیں اپنی زندگی گذارنے لگے اسکے باوجود راشد حسین ہمیشہ ریاستی ظلم و جبر کے خلاف مختلف ناموں سے سوشل میڈیا پر کام کرنے لگا اور سوشل میڈیا پر سرکلنگ کے زریعے بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو یکجا کرتے ہوئے انہیں تربیت دیتا رہا۔

26 دسمبر کی صبح جب راشد اپنے دیگر دو کزنوں کے ہمراہ منامہ اجمان سے انٹرنیشنل سٹی کے جانب جارہے تھے کہ شارجہ کے مقام پر دو گاڑیوں میں سوار ابوظہبی کے خفیہ اہلکاروں نے گاڑی روک کر تمام افراد کے کارڈز چیک کرنے کے بعد راشد حسین کو اپنے ہمراہ لے گئے اور راشد بنا کسی مزاحمت کے انکے ہمراہ چلا گیا، کیونکہ راشد کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ پاکستان اسے کس شاطری سے نشانہ بنا چکا ہے اور یوں وہ 6 ماہ ابو ظہبی کے کسی قید خانے میں بند رہے، جسے پھر پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔

راشد حسین کے غائب ہونے کے بعد انکے خاندان سمیت بلوچ سیاسی کارکنوں نے کئی جگہ رپورٹ درج کرائے اور احتجاج رکارڈ کرایا لیکن اماراتی حکام نے راشد حسین کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھ کر نا کسی وکیل تک رسائی دی نا اسکی کوئی قانونی چارہ جوئی کرائی گئی، پھر 22 جون کو راشد حسین کو العین سے بغیر امیگریشن، بغیر پاسپورٹ کے ایک پرائیویٹ جیٹ میں بٹھاکر نوشکی دالبندین منتقل کردیا گیا جہاں عرب شیخ پکنک منانے کے غرض سے ہوائی سفر کے زریعے آتے ہیں –

پاکستان جیسے مکار ریاست نے راشد حسین کو گرفتار کروا کر پھر اسے زبردستی پاکستان منتقل کروانے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔ انٹرپول کے زریعے گرفتاری سمیت کراچی ایئرپورٹ پر منتقلی جیسے جھوٹے پروپیگنڈے سے صاف ظاہر ہے راشد کو دو بدمعاش ریاستوں نے بغیر کسی کیس اور ثبوت کے ایک پلانٹڈ گیم کا نشانہ بنایا ہے، جس کا مرکزی کردار چائنا اور سی پیک ہے جس کی واضح مثال پاکستان میں قائم چینی سفیر کی راشد حسین کے اغواء کو گرفتاری کہہ کر اسے کامیابی قرار دینا ہے –

چائنا جیسی مکار ریاست اپنے ڈوبتی نیاء کو بلوچستان میں دیکھ کر اپنی ناکامی کو چینی قوم کے سامنے پنجاپی طرز مکاری سے چھپانا چاہتے ہیں، جہاں گوادر سمیت سی پیک پر اربوں انویسٹ کرنے کے بعد بھی اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ کرنے کے باوجود تواتر سے بلوچ سرمچاروں کو نشانہ بنانے کے بعد اپنے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر چائنیز کونصلیٹ حملے میں مختلف لوگوں کو پکڑ کر انہیں حملے کا کردار ظاہر کررہا ہے، تاکہ اسکے عوام کو لگے کہ چائنا پاکستان سی پیک جیسے سامراجی پراجیکٹ پر لگائے پیسوں اور اس پراجیکٹ کی حفاظت سمیت مستقبل میں اسکے خطرات دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے اس سے مستفید ہوسکتے ہیں جو بلی کے خواب میں چھیچھڑے کے مترادف ہوگا –

راشد حسین سمیت جتنے بھی لوگوں کو اس جھوٹی کیس میں پھسا کر اغواء کے بعد گرفتاری ظاہر کرنے کے باوجود بھی کسی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اس سے ظاہر ہے کے چائنا و پاکستان مل کر اپنے ناکام عزائم بے گناہ طالب علم او انسانی حقوق کے کارکنان کو نشانہ بناکر پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور امارات جیسا سرمایہ دار ملک جنکی عزت نفس ایمان پیسوں پر ہے وہ کیونکر چائنا پاکستان جیسے ریاستوں کے لیئے لوگ پکڑ کے واپس نا بھیجیں جہاں ان ممالک نے کروڑوں کے بزنس لگائے ہوئے ہیں لیکن کیا بلوچ لیڈران، سیاسی پارٹیاں اس چیز کے لیئے تیار ہیں کہ وہ دنیا کو اپنے مقصد اور حالات سے واقف کرسکیں کیونکہ راشد پہلا ہوسکتا ہے، اخری نہیں اس پر سوچ و بچار کریں تاکہ کل کو پچھتانا نا پڑے آپ کو؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔