آنگن – عمران بلوچ

393

آنگن

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سرباز کے والد نے جیسے ہی ہوش سنبھالا تو کچھ ادھیڑ شخص اس کے پاس تھے جو پہلے سے وہی پر موجود تھے۔ ایک نے سوال کیا: کیا وہ تمہارا کچھ لگتا ہے جسے دیکھ کر تم اپنے حواس کھو بیٹھے؟ نہیں شاید میرا نہیں پر جہاں پر بھی لاش گرتی ہے وہ میرا اپنا ہی ہوتا ہے، خون کا رشتہ نہیں پر احساس کا ضرور ہے۔ سرباز کے والد نے جواب دیا۔

اس بےجان جسم کی شناخت نہیں ہو پارہی تھی۔ سرباز کے والد خود کو دل ہی میں تسلی دے رہے تھے کہ وہ میرا سرباز ہے ہی نہیں۔ پر گھر جاکر اس ماں کو کیا جواب دونگا جو اپنے لخت جگر کے انتظار میں ہے۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ گھر میں ماں بہن منگیتر سب سرباز کے آنے کے انتظار میں تھے سرباز کی منگیتر خود کو سینگار کرچکی تھیں بار بار پوچھ رہی تھی کہ میں جانتی ہوں میں اس کو بے حد پسند ہوں یہ سینگار بس دنیا کے سامنے کر رہی ہوں کیا سرباز مجھے پہچان لے گا کیا اس کو یہ رنگ جو میں نے تن زیب کی ہوئی ہے پسند آئے گا۔ ماں وہ تو بس تسبیح ہاتھ میں لیئے سوچ رہی تھی میرا سرباز آئے گا تو میں لپک کر اسے باہوں میں جھکڑ لونگی، وہ دس سال بعد آرہا ہے ماں کی آواز میں شدت کی خوشی تھی جس کا اندازہ اس کے چہرے سے ہورہا تھا۔ بہن کی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے وہ اپنی امی سے کہ رہی تھی یاد ہے امی وہ دن جب سرباز مجھ سے لڑتا تھا اور میں اس کے ساتھ، اب تو ان یادوں پر دھند پڑھتی جارہی ہے۔ ماں کو بس انتظار تھا اپنے لال کا۔

جہاں وہ لاش موجود تھی وہاں کچھ اور لوگ آئے، وہ اس لاش کو پہچان گئے وہ ان کا سرباز تھا پر اب کیا باپ تو صدمے سے نکل نہیں پا رہا تھا وہ کیا کرے وہاں اس کی بیوی سرباز کی ماں کو کیا جواب دے گا کہ وہ اسے لیکر نہیں آیا کیونکہ وہ سرباز تھا ہی نہیں، انہیں سوچوں میں گم وہ گھر کی طرف روانہ ہوا گھر کے دروازے پہ پہنچتے ہی وہ سوچ رہا تھا کہ وہ گھر میں بغیر سرباز کے کیسے داخل ہو وہ ان سوالات کے لیئے بلکل تیار نہ تھا جو اس کی بیوی بیٹی یا سرباز کی منگیتر کرنے والی تھی۔ کرے تو کیا کرے، اس کے دل سے بس ایک دعا نکل رہی تھی کے اے خدا مجھے موت کی آغوش میں لو میں کسی کو جواب دے نہیں پاونگا، سرباز کی ماں برداشت نہیں کر پائے گی کہ اس کا بیٹا آیا ہی نہیں۔

اندر سے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی سرباز کی ماں انتظار مین بار بار گلی میں جھانکتی کہ کب آئے گا میرا بیٹا، دروازہ کھولا تو سامنے سرباز کے والد کو اکیلے دیکھ کر پوچھ بیٹی کہاں ہے میرا لال، وہ گلی کے کونے تک جھانکی پر کسی کو نہیں دیکھا۔ سرباز کا والد سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ بتائیں نا کہاں ہے میرا بیٹا، پھر کوئی جواب نہ دے سکا۔ اب تو بہن اور اس کی منگیتر بھی آچکی تھیں سب نے اپنے سوال داغ دیئے یہ سوالات اس کے سینے پہ ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی جسم پر تیز دار چھری سے وار کی جائے۔ ماں نے پھر سے اپنے شوہر کا گریبان جھکڑ کر پوچھا کہاں ہے وہ، کیا جواب دیتا کوئی جواب موجود تھا ہی نہیں۔

آنگن میں سارے رنگیں پھیکی پڑھ گئیں وہ چڑیا جو اس آنگن میں خوشی دیکھ کر چہک رہی تھیں انہوں نے بھی وہاں سے کوچ کر لیا غم اس بار شدت اختیار کرگیا اب شاید سرباز کی ماں نے امید چھوڑ دیا وہ دروازے پہ نڈھال ہوگئی بھرپور کوشش کے باوجود وہ ہوش میں نہ آسکی اپنے سینے میں درد لیئے ہوئی سرباز کی ماں اسے دیکھے بغیر ہی خاک کی سپرد ہوگئی اس نے بس اپنے آخری چند گھڑیوں میں اتنا ہی کہا تھا میری خواہش جو میں نے خدا سے کی تھی وہ ادھوری رہ گئی، میں چاہتی تھی کے مجھے میری آخری آرام گاہ پر میرا بیٹا پہنچا دے گا۔


ی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔