یہ ان دنوں کی بات ہے | قسط دوئم – گہرام اسلم بلوچ

288

یہ ان دنوں کی بات ہے

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

(گذشتہ سے پیوستہ | قسط دوئم)

پہلا قسط

دی بلوچستان پوسٹ

( یہ ان دنوں کی بات ہے “ کا دوسرا قسط ہے، یہ یاداشت، میری بلوچستان کے طلباء اور ملکی سیاست سے جُڑے رہنے کے اپنے کچھ تجربات و یاداشت ہیں، جنکا میں چشم دید گواہ ہوں، انکو بیان کرنے کے کوشش کررہا ہوں۔ اس سریز کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ قارئین اکتاہٹ محسوس نہیں کریں اور تشنگی باقی رہے۔ جس چیز کی شدت سے انتظار ہوگی وہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا )

وہ جنہوں نے اسکی بنیاد رکھی، جنہوں نے اسکے عروج کی نصف صدی دیکھی اور اسکو ہم تک پہنچانے میں زندانوں کی کڑی صعوبتیں اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے، اپنے زندگی کے خوبصورت لمحات اس سرخ پرچم تلے اس لیئے گذارے کہ آگے چل کر یہی تنظیم بلوچستان اور دیگر طلبا کے حقوق کی پاسداری کرنے میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرے گی۔ بی ایس او کے نوجوانوں کے اس منتشر حالت کو دیکھتے ہوئے یقیناً ہم جیسے لاکھوں اسٹوڈنٹس کو بہت تکلیف ہوئی، جس سے بے شمار طالب علموں کی بے تحاشہ امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ آپس کی چپقلش اس حد تک شدت اختیار کرچکے تھے کہ کوئی ایک دوسرے کیساتھ بیٹھنے تک تیار نہیں تھا۔ جس تنظیم کی خوبصورتی نظریاتی رشتے کو ہر خونی رشتے پر فوقیت دینا تھا۔ جنکے سرکلوں سے فارغ التحصیل بے شمار رہنما اور لیڈرز اب عملی زندگی میں ہوں، کچھ افسر شاہی کے نشستوں پہ براجماں ہیں، ہر کوئی اپنے طریقے سے جدوجہد کرتے ہوئے، کسی نا کسی طرح سے جُڑے ہوئے ہیں۔ کسی کے قربانی سے اختلاف ضرور رکھا جاسکتا ہے مگر انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ 2005-2006۔ کا وہ دور تھا “ بلوچستان میں طلباء تنظیمیں شاید اپنے عروج کی آخری جنگ لڑ رہے تھے “ بدقسمتی سے اس عروج نے بجائے برقرار رہنے کے بہت پیچھے دھکیل دیا۔ یہ وہ دن تھے کہ تربت میں کسی سرکاری گاڑی نے ایک اسٹوڈنٹ کو کُچل دیا تھا تو بی ایس او کے تمام دھڑوں کا مشترکہ احتجاج اور تربت پولیس تھانے کی گھیراؤ ہوا، نوجوانوں کے نعرے ہر شہری کی دلوں میں گونج رہے تھے۔ اُس وقت تمپ نذرآباد سے تعلق رکھنے والے مخلص سیاسی کارکن اپنے مخصوص انداز کے نعروں میں سب سے زیادہ متحرک تھے، آج کل معلوم نہیں کہاں گمنامی میں زندگی گذار رہا ہوگا “ اللہ سب کو سلامت رکھے “۔ بی ایس او کے اس عروج کے دور میں طلبا سیاست میں قدم رکھنے والے نوجوان اپنے ہی دور میں انکی زوال کو دیکھنے کے لیے زندہ ہوں تو اُنکو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ موضوع سے جڑے ہوا ایسی بہت سارے واقعات و حالات ہیں جو بی ایس او اور طلبا سیاست کی عروج کے بے شمار تاریخی کارنامے ہیں، آگے چل کر بیان کرونگا۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔