یہ ان دنوں کی بات ہے | قسط اوّل – گہرام اسلم بلوچ

565

یہ ان دنوں کی بات ہے۔

گہرام اسلم بلوچ

قسط اوّل

دی بلوچستان پوسٹ

(اس قسط وار مضمون کا مقصد صرف اور صرف قارئین تک اپنے دور کے طلبا سیاست میں اُتار چڑھاؤ کے بارے میں جو میں نے دیکھا جسکا میں چشم دید گواہ ہوں اُنکو اپنے دور کے نوجوانوں تک پہنچانا، میری ذمہ داری میں شامل ہے۔ اور یہ دعوی ہرگز نہیں کروں گا کہ سب قارئین مجھ سے اتفاق کریں یہ میرا ذاتی، تنظیمی، بحیثیت سیاسی کارکن کچھ یاداشت ہیں۔ جو دورانِ کیمپس اور طالب علمی کے دور میں عظیم طلبا تنظیم بی ایس او کے پلیٹ فارم سے جو سیکھا اور دیکھا آنکو اسی طرح تحریر کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں۔ اور اس تنظیم کا ہمیشہ قرض دار رہوں گا، جسکی مجھ پر بہت احسانات ہیں، اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ مجھے ایک سیاسی و سماجی پہچان دی بلوچستان اور ملک کے طول و عرض میں متعارف کرایا۔)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنی سوچ و شعور سے یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ کونسا راستہ اختیارکریں، اپنےاردگرد کے ماحول زبان، کلچر اور پسے ہوئے عوام سے ایک شعوری اورفکری لگاو تھا۔ اس جنون اور لگن کی حقیقت کا پتا تب چلا، جب ہم نے گورنمنٹ عطاشاد ڈگری کالج تربت کے سنسان نما پر رونق چاردیواری کے اندر قدم رکھا اور شہید فدا، شہید حمید اور شہید اسلم جان ہاسٹل میں چار سال کیلئے مہمان بنے۔ یہ وہ برے دن تھے کہ ہماری غرور مادر تنظیم ایک بار پھر بحران کی کش مکش اور تقسیم ہوا تھا۔

میری ایک بہت بڑی خواہش تھی کہ جب میں سکول میں پڑھ رہا تھا تو بڑا بھائی اس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن BSO کا ایک متحرک سیاسی کارکن تھا۔ ان ہی کے سرکلوں سے میری شناسائی اس وقت کے بڑے سینئر طلباء رہنماوں اور کامریڈوں سےہوئی۔ جب بھی ان کی خدمت کا موقع ملاتو وہ دن زندگی میں بہت یاد آتے ہیں اسلیئے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے آئیڈیل اسٹوڈنٹ لیڈر تھے، ان سے ہزاروں طلباء کی امیدیں وابستہ تھے اور یہ بھی پریشانی تھی کہ ان رہنماوں کی اس غربت کے عالم میں کس طرح خدمت کی جائے، ویسے وہ بے تکلیف اور بہت نفیس اور درویش قسم کے نوجوان تھے درویشی، کمنمنٹ اور مجبور، لاچاروں کیلئے جہدوجہد کرنا ان ساتھیوں کی پہچان تھی۔

جب سے ہوش سنبھالا اور ان طلباء رہنماوں سے ملاقات ہوئی تو بڑی شدت سے اس انتظار میں تھا کہ کب عملی زندگی میں ان دوستوں کی زیر نگرانی کارکن کی حیثیت سے کام کرنےکا موقع ملے گا۔
اس امید کیساتھ کالج میں آیا تھا کہ جن کی کبھی کھبار محفلوں میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل تھا، اب دن بھر ان کے سرکلوں میں بیٹھ کر جی بھر کے ان کو سنونگا ان سے سیکھوں گا، یہ ہم سب مظلوموں کی یقین اور بھروسا تھا کہ ان سرکلوں سے ان استحصالی قوتوں کو شکست سے دوچار ہونا ہوگا جو برسوں سے مظلوم طلباء کی استحصال کرتے آرہے ہیں۔

بہت دکھ ہوا جب یہ سنا جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک ہی موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلو میٹر سفر کرنے والے ہیں، آج ایک دوسرے کیساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ یہاں سے میرے خواب چکنا چور ہو گئےاور سوچا کہ اس معاشرے میں اتحاد و اتفاق ہماری طاقت تھی، سر فکر سے بلند تھی کہ ہماری اس تنظیم نے مختصر وقت میں ایک آئیڈل مقام حاصل کیا، اس خطے کے تمام طلباء تنظیموں کیلئے رول ماڈل تھی۔ اگر اسکو کچھ ہوا تو کیا ہوگا۔

جو امید لے کر بیٹھے ہیں ہم کیا جواب دیں گے اُن ہزاروں طلبا کو کہ جنکی رہنمائی اور حقوق کی جنگ لڑنے کی ٹھان لی تھی۔ کس منہ سے اپنے بزرگ اور سنیئرز کے پاس جائیں کہ جنہوں نے ایک نمائندہ طلبا تنظیم کو اس لیے ہمارے ہاتھ میں دے دیا کہ ہم اُنکو مزید منظم و متحرک تنظیم بنائیں گے اسکو لاکھوں انسانوں کی آواز بنائیں گے۔ یہ وہ دن تھے کہ ہم بی ایس او کو تین دھڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ انتہائی تکلیف دہ لمحات تھے۔ ہم جیسے ادنی سیاسی کارکن نے بی ایس او کے عروج کا صرف مختصر دور دیکھا۔ وہ جنہوں نے انکے بنیاد رکھی جنہوں نے انکی عروج کے نصف صدی دیکھی اور اسکو ہم تک پہنچانے میں کتنی زندانوں کی صُحبتیں کاٹی ہوں گی۔۔۔۔( جاری)


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔