ہزار سالہ افغان تاریخ، دس منٹ میں ٹرمپ کی تباہی کی دھمکی – شہیک بلوچ

246

ہزار سالہ افغان تاریخ،دس منٹ میں ٹرمپ کی تبای کی دھمکی

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

افغانستان عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بننے اور سب سے بڑی بدقسمتی پاکستان جیسی مصنوعی ریاست کا افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے غلیظ عزائم نے افغان وطن کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا۔ پروکسیز ہی پروکسیز میں افغان مادر وطن اپنے ہی باشندوں کے لیے کسی اجنبی دیار سے بھی بدتر بن چکی ہے۔ عالمی قوتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے پاکستان طالبان کا سہارا لیتا ہے تب بھی بیگناہ افغان ہی مرتے ہیں اور امریکہ کی کاروائیوں میں بھی بیگناہ افغانوں کی لاشیں بچھ جاتی ہیں۔
ڈیورائنڈ لائن کے دونوں طرف موت کا رقص ہے۔
افغانوں کی دھرتی پر جنگی فوائد حاصل کرنے والے پاکستانی انہیں نمک حرام قرار دیتے ہیں، ان کی نسلیں اجاڑنے کے بدلے پاکستانی فوج چاہتی ہے کہ افغان ان کے احسان مند ہوکر ان کے در پر سجدہ ریز ہوں۔

امریکہ دس دن میں افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا مضحکہ خیز بیان جاری کرتا ہے لیکن افغانوں کی بدقسمتی کہ کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ڈالروں کے بدلے افغان خون کے سودے کو روک سکے۔ پی ٹی ایم ایک آواز بن کر ابھری لیکن اس کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ کس حد تک پشتونوں کو بالخصوص اور افغان ملت کو بالعموم لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی تو ریاست پاکستان کے رحم و کرم پر چند مراعات اور گروہیت کا شکار ہیں۔ ان سے کسی بڑے انقلابی فیصلے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔پی ٹی ایم ایک واحد امید ہے لیکن ان کو جامع پالیسی درکار ہے تاکہ وہ مزید مشکل مرحلوں میں ریاستی پالیسیوں کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔

بلوچ تحریک کو لے کر پی ٹی ایم نے جو رائے قائم کی وہ بظاہر تو درست نظر آرہی تھی لیکن ریاست کے حقیقی کردار کو جس طرح نظرانداز کیا گیا اس کا کافی حد تک اندازہ پی ٹی ایم کے ساتھیوں کو ہوچکا ہے اور آگے بھی ہوتا رہیگا۔ پی ٹی ایم نے اندرونی سرکلز میں بلوچ تحریک کو جذباتیت سے تشبہیہ دے کر ریاست کے فاشزم کو جس طرح نظرانداز کیا وہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ ابتدائی طور پر بلوچ تحریک کا رجحان بھی پرامن رہا لیکن ریاستی جبر نے بلوچ کو اس انتہا تک پہنچایا جہاں بلوچ کے پاس مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔

پی ٹی ایم پر بھی ریاستی جبر اپنا زور دکھاتی جارہی ہے۔ جس بہیمانہ طریقے سے علی وزیر اور محسن داوڑ کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کی گئی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پشتون بھائی بلوچ تحریک کا جائزہ لیں کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لیے کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟

ایک فاشسٹ ریاست ہے جو قتل و غارت گری کا مائنڈ ماسٹر ہے اور آپ اس سے پرامن سیاسی طریقوں سے اپنے حقوق کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ ایک مجرم سے آپ امن کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ آپ کو ان باتوں پر باریک بینی سے غور کرنا ہوگا۔
بلوچ نا ہی رومانویت کا شکار ہے نا ہی نرگسیت کا۔ نا ہی ایڈونچرازم کا بلکہ یہ تو نوآبادیاتی نظام کی حقیقت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر قومی نجات کے لیے اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ چلیں اگر بلوچ جذباتی ہیں یا اینٹی ریاست ہیں تو پھر پشتون کو کس کھاتے میں ڈال کر یہ سزا دی جارہی ہے؟ منظور پشتون اتنے امن سے بات کرنے کے باوجود کس بنیاد پر غدار قرار دیا جارہا ہے؟ علل اعلان ٹی وی چینلز پر پی ٹی ایم کو واجب القتل قرار دیا جاتا ہے ان سب باتوں کے بعد اگر پرامن طریقوں سے آپ ملٹری ریاست سے اپنی بات منوا سکتے ہیں تو یہ خام خیالی ہی ہوگی۔

بنگال بھی پرامن تھا لیکن ان کو اس کی قیمت بھاری نسل کشی کی صورت میں چکانی پڑی۔ بلوچ اگر لڑ رہا ہے تو یہ ایک شعوری فیصلہ ہے، تمام تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ مسلح تحریک جاری ہے اور تمام تر نقصانات کے باوجود آج ایک منظم قومی قوت کی صورت میں سب کے سامنے ہے لیکن پشتون کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ قبضہ گیر ریاست، عالمی قوتوں کی سازشوں اور پروکسیز کے رحم و کرم پر اسی طرح نسلوں کو اجڑتا دیکھتے رہینگے یا ایک قومی قوت بن کر ملٹی ڈائمینشنل جدوجہد کے ذریعے اپنی حقیقی قومی نجات حاصل کرینگے۔

ڈیورانڈ لائن کے دونوں اطراف کی تباہی میں پشتون کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں اور پشتون جب تک بہ حیثیت قوم نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا تب تک پشتون مادر وطن پر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا کیونکہ جن بنیادوں پر جنگیں مسلط کی جاتی ہیں ان ہی بنیادوں پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ “ممکن ہے آپ کو جنگ میں کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن جنگ کو آپ میں ضرور دلچسپی ہوگی۔”

اب پشتون جس حد تک بھی امن کی بات کرے لیکن مسلط شدہ جنگ سے آنکھیں پھیرنا ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ آپ کے پاس ایک ریاست ہے، افرادی قوت ہے اور ہر حوالے سے آپ ایک بہتر تحریک منظم کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک ایسا لیڈرشپ درکار ہے جو صحیح معنوں میں لیڈ کرسکے اور پی ٹی ایم کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بغیر کسی صورت پشتون امن سے نہیں رہ سکتے اور اگر یہ نظام برقرار رہا تو پشتون گلزمین عالمی قوتوں و قبضہ گیر ریاست کے ہاتھوں مزید تڑپتا رہیگا اور پشتون کی حیثیت کو تعین کرنے والے یہی مکروہ کردار ہونگے۔ جس طرح پشتون کلچر پر انہوں نے مذہب سے وار کیا اور پروکسیز کے ذریعے نیشنلزم کو نقصان پہنچایا اس پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں یہ تمام عوامل پشتون کو کہاں تک پہنچائینگے؟ جس طرح افیون کے کاروبار کو اپنے مفادات کے لیے پھیلایا گیا اور کس طرح نسلوں کو غلامی کی بھینٹ چڑھایا گیا اگر پشتون غیور فرزندوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو پشتون ایک ہجوم بن کر ہی رہ جائیگا پھر ہجوم کو ہانکنا کسی کے لیے مشکل نہیں لیکن اگر پی ٹی ایم اپنا مزاحمتی کردار ادا کرتی ہے اور ہر طرح کے قربانی کے لیے قوم کو تیار کرتی ہے تب ایک قوم بن کر پشتون اپنی قومی منزل کو پاسکتے ہیں اور بلوچ جدوجہد ان کے شانہ بشانہ رہیگی یوں مشترکہ دشمن کے خلاف ایک موثر مشترکہ کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ اور اسی میں مظلوم اقوام کی نجات ہے کہ وہ نوآبادیاتی نظام کے مکمل خاتمہ تک جدوجہد کو جاری رکھیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔