گوادر – کے.بی فراق

301

گوادر

کے. بی فراق

دی بلوچستان پوسٹ 

گوادر میں ‏رات گئے جب سیکیورٹی اہلکار گھر میں داخل ہوتےہیں تو سوتے ہوئے کسی بھی شخص کی آنکھوں پر ٹارچ لگا کر اٹھاتے ہیں اور اس کی جب حالت غیر ہوتی ہے تو اس پر سیکیورٹی اہلکار شک میں پڑ جاتےہیں کہ ضرور یہ بندہ مشکوک ہوگا اور ساتھ ہی پھر اسی کے اپنے گھر میں اس سے ان کا شناختی کارڈ مانگتے ہیں اور خود کو ثابت کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

اب کے صورتحال ایسی ہے کہ جن کے گھر میں اگر وہ نہیں گئے تو وہ نفسیاتی طور پر اس ذہنی بکھراؤ، کشمکش اور آزار سے گزر رہے ہوتے کہ اب آیا کہ تب آیا۔ کیونکہ دھیرے دھیرے لوگ اس طرح نفسیاتی خلفشار کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اور وہ خود کو ذہنی طور پر محصور پانے لگے ہیں ۔ آج ایک عام شہری سے بات ہو رہی تھی کہ اب کے ہمارے اس شہر میں کوئی ایسی جگہ تفریح کے لیےخالی نہیں رہی کہ کوئی جا کر آزادی سے گھنٹہ بھر تسکین سے بیٹھ سکیں۔ جیسے ایک دیدہ نادیدہ احساس کے شکنجے میں وہ کَس کے رہ گئے۔ اس ڈر کی وجہ سے لوگوں کا اپنے رشتہ داروں کو گھر میں ٹہرانا جیسے ایک پیش گفتہ پیشی یا پھر انھیں تلاش کرنے کا بھگتان کی صورت لیئے ہوئے ہوتے۔ سو اس برخود غلط محافظ سے بھی ڈرا سہما جائے۔ کیونکہ یہ کسی بھی وقت گھر پھلانگ کے داخل ہوتا ہے اور کسی بھی عمر کے شخص مرد یا عورت کو اغواء کرکے غائب کرنا یقینی ہے۔(ایک عام شہری کے تاثرات)جس پر مقامی قیادت کو سوچنا اور لائحہ عمل وضع کرنا چاہیئے کہ کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔

ویسے بھی ان دنوں چادر اور چاردیواری ہمارے لیے معمول کی بات ہوگئی ہے۔ جس کا مشاہدہ یا تجربہ کسی بھی گھر کے مکین کے ساتھ پیش آنا ممکن ہے۔ پہلے لوگ یہ سب دیکھ کےصدمے کی حالت میں ہوا کرتے تھے۔ اب کے اس میں حیرت کے پہلو بھی نہیں رہے۔ جب مُلا بند کے ایک گھر میں داخل ہونے کے بعد تلاشی لینے لگے اور لوگوں کو شناخت کرنے کے بعد پھر چلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھے تو گھر کی عورت نے کہا کہ”خدا کا شکر ہے” کہ اب کے سکون سے سو سکیں گے۔
یہ سن کر سیکیورٹی اہل کار پھر پلٹ کر پوچھنے لگے کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟
اور یہ لوگ پھر گھر کی تلاشی لینے میں جُٹ گئے۔

مہذب ممالک میں فوج کا شہری زندگی میں داخلہ معیوب اور دہشت سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن دنیا کے نقشے پر ایسی دہشت اساس ممالک بھی ہیں جو یہ سب کرتے ہوئے معیوب محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی شرمندہ ہوتے ہیں۔ جس کی ایک بدبودار نمونہ ہم آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔