کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لیے احتجاج جاری، این او سی کے حصول کے لیے درخواست جمع

122

ہم بولنے کے حق سمیت اپنے تمام انسانی حقوق کھوچکے ہیں، ہر روز کھلے بندوں ہماری تذلیل کی جاتی ہے – ماما قدیر بلوچ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3654دن مکمل ہوگئے، تنظیم کی جانب سے احتجاج جاری رکھنے کے لیے این او سی کے حصول کے لیے درخواست جمع کردی گئی جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔

ٹی بی پی نمائندہ کوئٹہ کے مطابق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ جاری رکھنے کے لیے این او سی کے حصول کے لیے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے پاس درخواست جمع کردی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ وی بی ایم پی کا لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پر امن اور آئینی طور پر بھوک ہڑتالی کیمپ گذشتہ دس سالوں سے جاری ہے۔ پاکستان کے شہری کے حیثیت سے ملکی قوانین کے مطابق پر امن اور آئینی طور پر احتجاج ہمارا حق ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے ہماری تنظیم (وی بی ایم پی) کی جانب سے جتنے احتجاج ہوئے ہیں پر امن طور پر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کی گئی ہے اور آئندہ بھی ہمارا احتجاج پرامن اور آئینی طور پر ہوں گے۔

وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے دستخط کے ساتھ جاری کردہ درخواست میں انتظامیہ سے گزارش کی گئی ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز بھوک ہڑتالی کیمپ کو این او سی جاری کیا جائے۔

دریں اثناء احتجاج کیمپ وی بی ایم پے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم کو غلام رکھنے کے لیے پاکستانی ریاست کے لیے تشدد اہم ذریعہ ہے، ریاست محکوم قوم پر محض تشدد کے زور پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی بلکہ اس کے لیے تعلیمی اداروں، میڈیا، مالی اداروں اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع کا بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچ اب تک یہی سمجھتا ہے کہ انہیں محض تشدد کے زور پر غلام رکھا گیا ہے اور اسی لیے قومی غلامی سے نجات کے لیے محض تشدد پر انحصار کرتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ پرامن جدوجہد ریاست کو سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔

ماما قدیر نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا بلوچ عوام کے پرامن جدوجہد کو دنیا کے سامنے غلط انداز میں پیش کرنے میں پیش پیش ہے، سامراجیوں کا دستور رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مقبوضہ جات میں جہاں بڑے پیمانے پر تشدد کا استعمال کیا وہی محکوم اقوام کو ذہنی غلام بنانے کے لیے میڈیا اور دیگر ذرائع اور بالخصوص محکوم اقوام میں جعفر و صادق کے ذریعے معاشرے میں مایوسی پھیلایا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم کبھی بھی اتنے آزاد نہیں تھے، ہم بولنے کے حق سمیت اپنے تمام انسانی حقوق کھوچکے ہیں، ہر روز کھلے بندوں ہماری تذلیل کی جاتی ہے اور ہمارے پاس خاموش رہنے کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے۔