مسلح جدوجہد | قسط 2 – کوامے نکرومہ | مشتاق علی شان

411

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 2

مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ

مصنف کا نوٹ | دنیا کے لیے سامراج کی حکمت عملی

ترجمہ : مشتاق علی شان

مصنف کا نوٹ

یہ کتاب میں نے Conakry(جمہوریہ گنی) میں لکھی تھی۔ اس کے ابتدائی نوٹس جوگوریلا جنگ کی دستی کتاب کے لیے میں نے لیے تھے وہ 21فروری 1966کو گھانا میں ہی رہ گئے تھے جب میں ہنوئی (ویت نام)میں تھا۔وہ سارا اسکرپٹ فوج اور پولیس کے غداروں نے سامراجیوں، جدید نوآبادکاروں اور ان کی جاسوس تنظیموں کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ دستی کتاب (HAND BOOK)مکمل طور پر ایک نیا جذبہ جگاتی ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ کتاب افریقی مسلح جدوجہد اور آل افریقن یونین گورنمنٹ کے قیام کے لیے مدد گار ثابت ہو گی۔ امریکا میں سیاہ باشندوں کی طاقتور تحریک اور کیربین جنوبی امریکا میں افریقی عوام کی جدوجہد افریقی سیاسی عسکری انقلابی جدوجہد کی متقاضی ہیں۔
ہماری فتح نہ صرف ہماری بلکہ سارے انقلابیوں،کچلے ہوئے لوگوں اور استحصال کے شکار عوام،جنھوں نے سرمایہ داری،سامراجیت،جدید نوآبادیاتی نظام کو للکارا ہے ان کی فتح ثابت ہو گی۔

کوامے نکرومہ
30جولائی 1968
کانکری، گنی

نظم وضبط کے اصول

(1) ایکشن کے دوران احکامات کی تکمیل کریں۔
(2) عوام سے سوئی اور دھاگہ تک طلب نہ کریں۔
(3)قبضے میں آئی ہر شے قیادت کے حوالے کریں۔
(4)اپنی گفتگو شائستگی سے کریں۔
(5)جو چیز خریدیں اس کے مناسب دام ادا کریں۔
(6)جو شے ادھار یا مستعار لیں اسے واپس کریں۔
(7) جس چیز کو نقصان پہنچاہیں اس کا معاضہ ادا کریں۔
(8)کسی پر الزام تراشی یا قسم کھانے سے گریز کریں۔
(9)فصلوں کو نقصان مت پہنچاہیں۔
(10)عورتوں کے ساتھ آوارگی مت کریں۔
(11)قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی مت کریں۔
(12)اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں۔
(13)اپنی صفوں میں دشمن کو پہچانیں۔
(14)بچوں کی رہنمائی کریں اور انھیں تحفظ فراہم کریں۔
(15)عوام کے خادم بنیں۔

دشمن کی شناخت

(مصنف کا پیش لفظ)
انقلابی مسلح جدوجہد کی لہر سارے افریقی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔اس لیے ہمارے علم میں اس امر کا ہونا لازم ٹھہرا ہے کہ ہم کس لیے اور کیوں لڑ رہے ہیں۔ اس کے لیے سامراج اور جدید نوآبادیات کو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اسے واضح طور پر پرکھ سکیں اور عالمی سطح پر اس کی حکمت عملی کی مکمل معلومات حاصل کر سکیں۔
میں نے اس کتاب میں سامراج اور جدید نوآبادیات کی ماہیت دکھانے اور اپنا مقصد واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد میں افریقہ کی سیاسی ہم آہنگی کی تشریح وتوضیح کرنے کی کوشش کی ہے۔

کوامے نکرومہ


پہلا باب
دنیا کے لیے سامراج کی حکمت عملی
WORLD STRATEGY OF IMPERIALISM

دشمن کو پہچانیں
KNOW THE ENEMY

بہت سے خارجی حالات اورواقعات افریقہ پر اثر اندازہوتے ہیں اس لیے ہماری آزادی کی جدوجہد کی سمت کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دشمن کو پہچانیں اور ان تمام واقعات کو درست طور پر سمجھیں۔ان میں سب سے پہلے سامراج ہے جو کہ ہمارے عوام کو استحصال کی چکی میں پیس رہا ہے۔اس لیے یہ سب سے اہم امر ہو گا کہ ہم سامراج کو بے نقاب کرنے کے لیے حکمت عملی تشکیل دیں۔

ذرائعِ پیدوار کا استحصال دشمن کے ہاتھوں ہمارا استحصال ہے جسے وہ جاری رکھے چلا آ رہا ہے۔قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے ان کی کوششیں کیا ہیں، اگر ایک بار ہم دشمن کی حکمت عملی کے حصوں کو اچھی طرح سمجھ جائیں تو پھر ہم اس قابل ہوں گے کہ اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کر سکیں۔

دوسری عالمگیر جنگ کے بعد روس اور چین کے سوا دنیاکی تقسیم کچھ یوں تھی:
(۱) سرمایہ دار ریاستیں جہاں سامراج مکمل شکل میں تھا۔
(۲) نوآبادیاتی ممالک جو سرمایہ دار سامراجی ممالک کی اقتصادی مدد کر رہے ہیں۔جنوبی امریکا کے کئی ایک ممالک ان حالات سے گزرے ہیں جن کا سامراج معاشی استحصال کرتا تھا۔جیسے اسپین اور پرتگال جو اب جدید نوآبادیات ہیں۔
دوسری عالمگیرجنگ کے بعد ان دونوں خطوں میں شدید معاشی،سماجی اور سیاسی دباؤ پیدا ہوا۔
(الف) سرمایہ دار سامراجی ریاستوں میں محنت کشوں کی تنظیمیں مضبوط اور تجربہ کار ہونے لگیں اور وہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ہونے والی پیداوارکا مطالبہ کرنے لگیں۔چونکہ دونوں عالمگیر جنگوں نے یورپی اقتصادی نظام کو لبِ گور پہنچا دیا تھا اور اس حالت کو زیادہ دیر تک نہیں ٹالا جا سکتا تھا اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ محنت کشوں کے کچھ مطالبات پورے کیے جائیں۔
(ب) جس وقت سرمایہ دارانہ استحصالی نظام اپنے اندرونی تضادات کے باعث ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہو رہا تھا اُس وقت دنیا میں نوآبادیات کے اندر آزادی کی مضبوط اور توانا تحریکیں ابھر رہی تھیں۔ ایک بار پھر عوام کے ان مطالبات کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں رکھا جا سکا اور یہ تحریکیں عوامی تحریکوں کی شکل میں ابھریں جیسے RASSEMBLENT DEMOCRATIC AFRICAN(R.D.A)اور ُPARTY DEMOCRATIC GUINEE (P.D.G)جس نے گھانا میں کام کیا۔بہت سے ممالک مثال کے طور پر ویت نام، کینیا اور الجزائر میں مظلوم عوام نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے آگ اور خون کے ذریعے براہِ راست مخالفت کا مظاہرہ کیا۔ان نوآبادیاتی خطوں میں،میٹرو پولٹین ریاستوں کے اندر جدوجہد اسی دشمن کے خلاف تھی۔

محنت کشوں کی تحریک اور آزادی کی تحریک سے بچنے کے لیے سامراج ایسی چھوٹی موٹی اصلاحات کرتا ہے جو اس کے نظام کو بچا سکیں۔ اندرونی توڑ پھوڑ جس کا دباؤ محنت کشوں کے احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے اس سے بچنے کے لیے اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو محفوط رکھنے کے لیے سرمایہ دار حکومتیں محنت کشوں کو کچھ مراعات دیتی ہیں۔ جیسے سوشل سیکورٹی، بہتراجرت،معیاری حالاتِ کار کے مواقع،تربیتی سہولیات اور اس قسم کی دیگر اصلاحات ان میں شامل ہوتی ہیں۔ہر چند کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں بنیادی تضادات کچھ عرصے کے لیے دب ضرور ہو جاتے ہیں لیکن یہی دوسری طرف استحصال کو یقینی بھی بناتے ہیں۔یہ شوشہ بھی چھوڑا جاتا ہے کہ سرمایہ دار معاشرہ ہر کسی کواچھی زندگی فراہم کرے گا اور ملک کو فلاحی مملکت بنایا جائے گا۔کیونکہ ایسی ہی دروغ گوئی کے ذریعے وہ کچھ عرصے کے لیے کمیونزم سے بچ سکتے ہیں۔


ان کے پیش نظر مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کس طرح سارے ضروری فوائد اور مراعات جو اقلیت کو حاصل ہوتے ہیں وہ جوں کے توں برقرار رہیں اورریاست کے لیے کس طرح سرمایہ حاصل کیا جائے۔اس مسئلے کے حل کے لیے سرمایہ دار نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی طور پر بھی اصلاحا ت کرتے ہیں۔جیسے فلاحی ریاست(ویلفیئر اسٹیٹ) کے لیے جو سرمایہ درکار ہے اسے حاصل کیا جاسکے۔باالفاظِ دیگر جدیدسرمایہ داری نوآبادیاتی ممالک کی مادی اور روحانی محنت کااستحصال کرنے سے قبل ان مندرجہ بالا امور پر انحصارکرتی ہے۔

ظاہری طور پر اندرون ملک اصلاحات کی جاتی ہیں تاکہ آزادی کی تحریک آگے نہ بڑ ھ سکے۔ ان اصلاحات کی فوری ضرورت ایشیااور لاطینی امریکا میں پڑی جہاں آزادی پسند قوتیں بڑی طاقت سے ابھرنے لگیں۔ کچھ خطوں میں ان انقلابی تحریکوں نے اقتدار بھی حاصل کیا،البتہ کچھ جگہوں میں یہ اپنے اصل مقاصد سے ہٹ بھی گئیں۔سوویت یونین،چین، کیوبا،شمالی کوریا اورشمالی ویت نام میں عوام کی فتح اور مصر،گھانا،گینیا (جمہوریہ گنی)،مالی اور الجزائر میں عوام کے آگے بڑھنے سے نہ صرف دنیا کا توازن تبدیل ہونے لگا بلکہ سرمایہ دار سامراجی ممالک خود کو گھیراؤ میں بھی محسوس کرنے لگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔