حقیقی قومی قوت و آزادی – برزکوہی

378

حقیقی قومی قوت و آزادی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ جمایا اور واپس برطانوی انخلاء ہوا، سوویت یونین نے افغانستان میں ڈیرا ڈالا پھر 80 کے دہائی کے اواخر میں انخلاء ہوا، امریکہ نے ایران میں رضا شاہ پہلوی کی روپ میں قدم رکھا اور آیت اللہ خمینی کی شکل میں ایران سے امریکہ کا انخلاء ہوا، امریکہ نے نیٹو ممالک سمیت افغانستان میں ڈیرا ڈالا اور اب 18 سال بعد طالبان اور امریکہ مذاکرات کررہے ہیں اور امریکہ واپس خیر خیریت سے نکلنا چاہتا ہے، یہ ممکن ہے یا نہیں اس سوال کا جواب آنے والا وقت بتا دے گا مگر اہم سوال یہ ہے کہ 18ویں صدی سے لیکر آج تک برصغیر سے لیکر ایران و افغانستان تک جہاں جہاں پر عالمی قوتوں کا حملہ، غلبہ اور قبضہ اور پھر ناکامی، شکست اور انخلاء ہواہے، اس پورے صورتحال میں اس خطے میں دو بڑے اور تاریخی اقوام افغان اور بلوچ نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟ کیا دونوں اقوام غلامی کھو کر آزادی پایا یا آزادی کھو کر غلامی پایا؟ اگر غلامی و آزادی اور آزادی و غلامی کو صحیح و حقیقی معنوں میں پرکھا جائے اور سمجھا جائے تو دونوں اقوام 18ویں صدی سے غلام چلے آرہے ہیں اور غلام ہیں۔

یعنی اس خطے میں یلغاروں، خلفشاروں، تبدیلیوں، حملوں اور انخلاؤں سے نہ ہم بلوچ کبھی صحیح معنوں میں آزاد حاصل کرسکے اور نہ ہی افغان قوم حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار ہوسکا۔ پھر کیا آج فرض کریں کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلاء ہو اور ایران پر حملہ اور قبضہ ہو تو کیا افغان اور طالبان ملکر حکومت بنا لیں یا پھر ایران پر امریکہ کا حملے سے خطے میں یہ دونوں اقوام مکمل آزاد و خود مختار ہونگے؟ جواب لازماً نفی میں ہوگا کیوں؟

اس لیئے کہ دنیا میں کوئی ایک مثال آج تک نہیں ملتی ہےکہ کوئی قوم خود تیار نہ ہو، وہاں ہوچی منہ، ماؤ، نیلسن منڈیلا یا کاسترو جیسا بصیرت رکھنے والے لیڈر موجود نہ ہو اور منظم قومی قوت و طاقت اور موثر قومی جنگ جاری و ساری نہ ہو لیکن پھر بھی اس قوم نے عالمی تبدیلیوں سے اپنے مفادات حاصل کرلیئے ہوں، اس وقت عالمی قوتوں کی خطے میں یلغاروں، غلبوں، حملوں اور انخلاؤں سے نہ کوئی قوم اور نا سرزمین آزاد ہوا ہے اور نہ ہی آزاد ہوگا، اور اگر کبھی ہوا ہے تو اس کے پیچھے اس قوم کی مسلسل جدوجہد اور رہنماؤں کی بصیرت کارفرما رہی ہے، جو عالمی تبدیلیوں کے انتظار میں نہیں رہے ہیں بلکہ اپنے زور بازو اور حکمت عملیوں سے اپنے مقصد کے جانب گامزن رہے ہیں اور اس دوران حالات تبدیل ہوئے ہیں تو انہوں نے ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر ان حالات کا فائدہ اٹھایا ہے۔

اسی لیئے کہتے ہیں کہ قومی آزادی آرام سے بیٹھ کر پلیٹ میں نہیں ملتی بلکہ قومی آزادی ایک طویل صبر آزما اور بے شمار قربانیوں کے بعد جنم لیتا۔

اگر آج افغان قوم کے پاس قومیت کی بنیادوں پر ایک منظم اور موثر قومی قوت و طاقت کے ساتھ ایک نیلسن منڈیلا، ماوزے تنگ، کاسترو، لینن، کیبرال وغیرہ وغیرہ جیسا بااثر اور پراثر لیڈر ہوتا تو کیا طالبان جیسے پروکسی یہ کہتے کہ افغانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ہوگی؟ کیا پھر امریکہ صدر ٹرمپ کا افغانوں کا دس دن میں ختم ہونے کا بیان آتا؟

قوموں کو کبھی بھی اس کی ماضی کی بہادری، ہزار سالہ تاریخ، کلچر، ثقافت، زبان وغیرہ ان یلغاروں سے نہ بچا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قوم کو اہمیت و افادیت دلا سکتے ہیں، البتہ قومی طاقت و قوت کی تشکیل میں قوم کی تاریخ، ثقافت، زبان وغیرہ سے انکار ممکن نہیں ہے مگر غلامی کے آغوش سے طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بغیر قومی طاقت حاصل کرنا ممکن نہیں۔

آج مثال دیتے ہیں کہ کیسے ایک یہودی ریاست اسرائیل، عالمی سازشوں و تبدیلیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے عین وسط میں قائم ہوا اور یہودیوں کو ایک ریاست پلیٹ میں رکھ کر دی گئی لیکن اس امر کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ایک چھوٹے سے ریاست کے حصول کیلئے یہودی کتنی بڑی تعداد میں نسل کشی کا شکار ہوئے، کتنی قربانیاں دیں اور انکی لیڈر شپ کتنی عاقبت اندیش تھی کہ وہ ایک صدی پہلے سے ہی اس پر کام کررہی تھی، یہ ریاست انہیں تیار پلیٹ میں ہرگز نہیں ملا، ان کے رہنماؤں نے اپنے قوم کو اس حد تک منظم کیا کہ پوری دنیا کے کاروبار پر اپنا اجارہ قائم کردیا، پھر اپنے کاروباری اثرورسوخ سے تمام طاقتور اقوام کے سیاست و سفارت تک رسائی حاصل کی، ہولوکاسٹ کا سامنا کیا پھر ریگستان کا ایک بے آب و گیاں ٹکڑا حاصل کرلیا، جسے بعد میں انہوں نے جنت نظیر بنادیا۔ یہ انکے رہنماؤں کی باریک بینی و عاقبت اندیشی کا ثمر ہے، عالمی قوتوں کا احسان نہیں۔

ایک منظم قوم و جماعت کو موافق حالات میں لیڈ کرنا، کوئی بڑی بات نہیں، یہ کوئی گلی نکڑ سے نکلا سیاستدان بھی کرسکتا ہے، اسکی مثال ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن کی صورت میں سامنے ہیں، ان ممالک کے ادارے مضبوط ہیں، حالات موافق ہیں، تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ کوئی مسخرہ بھی آکر رہنمائی کرے۔ لیکن منتشر و مفلوک الحال اقوم کو نا موافق حالات میں غیر معمولی رہنماؤں نے ہی لیڈ کیا ہے، اور اپنی قوموں کی قسمت بدلی، ویت نامیوں کی تقدیر ہوچی منہ و جنرل گیاپ نے بدلی، سیاہ فام جنوبی افریقیوں کو اقتدار و آزادی منڈیلا نے دلایا، کاسترو و لینن جیسے لوگ ہی کیوبا و روس جیسے ملکوں میں تاریخ کا دھارہ بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایسے لوگ تھے، جنہوں نے تبدیلی کا سرچشمہ اپنے عوام کو سمجھا، مسلسل جدوجہد کو سمجھا اور اسی پر کام کیا، اپنے قوم کو منظم کیا، نیا ویژن دیا، نیا مقصد دیا، جب خود مضبوط ہوئے تو عالمی حالات بالآخر خود انکیلئے موافق بن گئے۔ وگرنہ انتظار کرنے والے محض انتظار کرتے رہ جاتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔