جستجو و مطلق سچ – برز کوہی

868

جستجو و مطلق سچ

تحریر: برز کوہی

دی بلوچستان پوسٹ

فلسفی پرہو کہتا ہے کہ کوئی بات بھی یقینی نہیں ہے اور جب وہ مر گیا تو اس کے شاگردوں نے جو اس سے بہت عقیدت رکھتے تھے اس کی موت پر افسوس نہیں کیا کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ مرگیا ہے۔

موت ایک کامل سچ اور حقیقت ہے، مگر جب عقیدہ اسکے برعکس ہوتو سچ اور حقیقت پر بھی یقین نہیں ہوتا گوکہ وراثت، سماج، ماحول اور تربیت کے ذریعے ہر کوئی اپنے عقل و حواس سے غلط یا صحیح کا فیصلہ کرتا ہے اور یہ خیالات رفتہ رفتہ عقیدہ بن جاتے ہیں۔ اور پھر ہر کوئی اپنے عقیدے کو مطلق سچ کے گرادنتا ہے۔

میں پھر عرض کرتا چلوں کہ جب بھی کوئی انسان کسی سوچ و خیال، بات، شخص یا نظریئے پر عقیدت رکھتا ہو تو پھر فلسفی پرہو کی شاگردوں کی طرح موت جیسے سچائی اور حقیقت پر بھی یقین نہیں رکھ سکتا۔

فلسفی ڈیکارٹ ہمیشہ ہر فلسفی سے مطالبہ کرتا تھا کہ حواس کی شہادت کو مسترد کردو اور سوائے، واضح خیال؛ کے کسی چیز پر پورا یقین نہ رکھو۔ اسی طرح فلسفی بریڈلے کہتا ہے کہ کسی چیز کے حقیقی ہونے کے لیئے یہ لازمی ہے کہ اس کا مشاہدہ کیا جائے، اس رو سے اگر ہم یہ کہہ کر ڈیکارٹ کو مسترد کر بھی لیں، کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

چھوڑو یار فلسفیوں کو اور فلسفیانہ باتیں، سارے بکواس ہیں اور سارے کے سارے فلاسفر پاگل اور بے وقوف تھے۔
ہمیشہ فلاسفر اور فلسفے سے تعلق رکھنے والے انسان، فلسفے سے بے خبر و بیگانہ لوگوں کو پاگل و بے وقوف تصور کرتے ہیں اور عام لوگ فلسفے سے تعلق رکھنے والوں کو پاگل و بے وقوف مان لیتے ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے اور یقین و اتفاق کہاں پر ہو۔

بقول مشہور و معروف فلاسفر ول ڈیورانٹ حقیقت ایک مجرم ہے اور فلسفہ سراغ رساں ہے،
اگر آج بحثیت سیاسی کارکن، انقلابی اور جہدکار ذرا غور کریں کہ ہم کس طرح اور کیسے چیزوں پر یقین رکھتے ہیں اور حقیقت مان لیتے ہیں اور فلاسفر کس طرح بے وقوف اور پاگل تھے، کس قدر سوچتے و جستجو کرتے، گوکہ ہمارا کام اور مقصد فلسفہ جھاڑنا نہیں، مگر ایک بات ماننا ہوگا کہ دنیا کے تمام چیزوں پر فلسفیانہ انداز میں سوچنا، پرکھنا، مشاہدہ کرنا اور سمجھنا ہر انسان خاص طور پر ہر سیاسی کارکن اور جہدکار کی بنیادی ضرورت ہے وگرنہ بھیڑ و بکریوں کی ریوڑ کی طرح پھر انسانوں اور حیوانوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ہے۔

جس طرح ایک فلسفی غلط عقیدوں اور جہالت کے اندھیروں سے سچائی کی نور تلاش کر چھین کر بکھیرتا ہے، اسی طرح ایک جہدکار بھی کسی بھی فلسفی کی طرح سچ کا پاسبان و محافظ ہے، وہ قابض یا حاکم کے جھوٹ و فریب کے دبدبے میں سچ کو تلاش کر، اسکی حفاظت کرکے اسے سب تک پہنچاتا یے، اسی لیئے ایک فلسفی اور ایک جہد کار کا طرز فکر اور جستجو حق کی لگن ایک ہونی چاہیئے۔

جب ایک نا ہو تو پھر ہم ہر مہینے اور ہر سال اپنے آراء و خیالات کو بدلتے رہتے دیکھتے ہیں، آج جو سچ ہے کل وہ غلط بن جاتا ہے، کل جو غلط تھا آج وہ سچ بن جاتا ہے، دراصل وہ وہی تھا، وہی ہی ہوگا، وہ ہماری سوچ ہی ہوگی، جو بدلا ہے، جو کل کچھ تھا اور آج کیا ہے۔

اگر جہد کار کو یہ ضرورت پڑے کہ انکی جگہ کوئی اور سوچے اور کوئی اپنے فکر کی لاٹھی لیئے انہیں ہانکتے رہے، اور وہ اسی سمت چلتے رہیں، پھر تو وہ ریوڑ ہوئے انقلابی لشکر نہیں، انسان نما بھیڑ بکریوں کی ریوڑ کبھی بھی تبدیلی اور انقلاب نہیں لاسکتے ہیں۔

انقلاب خود تحقیق و جستجو، علم و شعور اور قربانیوں کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ ہوتا ہے اور یہ خاصیت اور صلاحیت جانوروں میں نہیں ہوتا ہے اور نہ کہ وہ انسانوں میں ہوتا ہے جو جانور نما انسان ہوں،
مشاہدہ و تحقیق اور جستجو کے بغیر ہر عمل ہر قدم ہر فیصلہ اور ہر رائے بڑی حدتک افسوس و پشیمانی اور خطرناک ہوگا شاید محدود حد تک حادثاتی طور پر صحیح ثابت ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے خود تحقیق، مشاہدہ اور جستجو کے اصول کی خاطر وہ ذہن خود کیسا اور کس طرح کا ہو؟ آیا وہ ذہن قابل جستجو، قابل تحقیق، اور مشاہدے کے لائق و فائق ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کس حدتک اور کیسے؟ اس پر سوچنا ہوگا اور حد سے بڑھ کر غور کرنا ہوگا۔

اگر طرز و اطوار میں تحقیق و فکر کا فن مقید ہو تو غلط سمت و غلط رخ سفر کرنے کی حالت، انسان پر کبھی بھی نازل نہیں ہوگا۔ قطع نظر سوچ سمجھ کر دانستہ طور پر، مخصوص مفادات و عزائم یا خواہشات و ہٹ دھرمی کی خاطر غلط رستہ چنا جائے۔ اسکے علاوہ انسان کبھی پھر غلط رخ و غلط سمت محو سفر نہیں ہوگا۔

تحریک آزادی یا انقلاب کی پرکھٹن اور خاردار راستوں پر چل کر اگر سوچ، زاویہ نظر اور نقطہ نظر روایتی ہو تو پھر فیصلے و پالیسی اور حکمت عملی بھی ضرور ہونگے مگر روایتی ہونگے اور جدوجہد کی کامیابی و کامرانی روایتی پالیسی و فیصلوں اور حکمت عملیوں سے ممکنات میں شامل نہیں۔

اس وقت ہم کس عہد سے گذر رہے ہیں اور کہاں پر کھڑے ہیں بحثیت قوم اور بحثیت تحریک؟
اس وقت سب سے اہم اور بنیادی سوال یہی ہے
اور پھر اس سوال اور اس کے جواب کے لیئے کیا درکار ہے؟ علم و ادراک یا پھر روایتی طرز و آراء؟

جب ہم تحاریک، جنگوں، انقلابات اور اقوام کی تاریخ سے نا بلد و بے خبر ہونگے تو ایسی حالت میں یا تو روایتی طرز سے سوچینگے اور سمجھینگے یا پھر پریشانی اور کنفیوژن کا شکار ہونگے، وگرنہ ایسے مسائل مشکلات، کٹھن حالات کے درمیان میں ہی مستقل مزاجی اور خلوص سے اپنی جہدوجہد کا جاری ساری رکھنا بہادری، ہنر اور صلاحیت ہوتا ہے اور کامیابی کا راز بھی اسی میں ہی ہوگا، یہ حقیقت آج بھی تحریکات اور جنگوں کے صحیح مطالعے و مشاہدے میں موجود ہے۔

خوف میں مبتلا ڈگمگاتے قدموں، الجھن اور مایوسی کے شکار لوگ تحریک اور جنگ پر بوجھ ہوتے ہیں نا کہ تاریخی دور میں تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں بلکہ وہ ضائع جہدکار ہوتے ہیں، حقیقی جہدکار وہ ہوتے ہیں، جو ہر حالت، ہر ماحول میں مستقل مزاجی، غیر ڈگمگاتے قدموں سے پرامید اور پر حوصلہ ہوکر اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے تحریک میں حصہ ڈالتے ہیں اور کردار نبھاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔