بلوچستان میں ماورائے عدالت گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عبداللہ عباس بلوچ

229

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو کے بیان کو مسترد کرتے  ہیں، حکومتی عہدیدار اپنی غیر ذمہ داری کو اپنے بیانات سے چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس بلوچ نے حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی متعلق اعلان پر رد عمل میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ آئے روز سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور حکومتی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے بلوچستان ایک انسانی بحران کا منظر نامہ پیش کررہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسلئہ ایک انسانی مسئلہ ہے اسے سیاسی مفادات کے برعکس انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کے سلسلے کو روکا نہیں جاتا لاپتہ افراد کا مسلئہ دن بدن پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے – ماما قدیر

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری نے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا لانگو کے بیان جس میں انہوں نے لاپتہ افراد کی تعداد دو سو بتائی تھی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی عہدیدار اپنی غیر ذمہ داری کو اپنے بیانات سے چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جس کا خمیازہ بلوچستان کے غریب و مظلوم عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کے صرف چھ مہینوں میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے 349 افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جن میں چالیس سے زائد طالب علم شامل ہیں۔ تیس جون کو نو لاپتہ افراد کو بازیاب کیا گیا جبکہ اسی دن مند کے علاقے میں ماسٹر ناصر کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کے بیٹے اسد ناصر کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فورسز کی بلاتفریق کاروائیوں کی وجہ سے کوئی بھی فرد اپنے گھر میں محفوظ نہیں۔ فوسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار لوگوں کو دن دھاڑے اٹھا کر لاپتہ کرتے ہیں اور دوران حراست غیر انسانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جسکی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کو کسی پارٹی نے نہیں بلکہ جنہوں نے لاپتہ کیا وہی رہا کررہے ہیں – جان محمد بلیدی

ان کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی پیچیدہ اور انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں سے 7000 افراد کی گمشدگی کے بعد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حکومت اگر اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے ان کے تجربات قلم بند کرکے عوام کے سامنے لائے اور لوگوں کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث فورسز اور خفیہ اداروں کےذمہ داران کو قانون اور آئین کے تحت سزا دے۔