بساطِ عالم اور وقت کا تقاضہ – میرک بلوچ

250

بساطِ عالم اور وقت کا تقاضہ

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

گذشتہ تحریر میں جو عرض کیا تھا، اس کی مناسبت سے مزید کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ USA اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ ساری دنیا میں منفرد حیثیت کا حامل ملک ہے۔ اس وقت تقریباً ساری دنیا کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد سے ابتک اس کے مدمقابل کوئی نہیں ہے۔ چین اور روس جسے پاکستانی نام نہاد دانشور اپنی منفی خواہشات کے تحت USA سے ٹکرانے کی امید لگاتے ہیں جوکہ صرف ان کا خواب ہے۔ سویت یونین اور USA۔ 1945ء تا 1990 کے دوران جن بنیادوں پر سرد جنگ کے ذریعے باہم لڑرہے تھے، وہ بنیادیں نظریاتی تھے۔ موجودہ روس اور چین کے درمیان USA کا کوئی نظریاتی ٹکراؤ نہیں ہے (خیر یہاں ہمارا مقصد USA روس اور چین کے درمیان تعلقات پر بحث کرنا نہیں بلکہ اپنی قومی مضمرات پر کچھ عرض کرنا ہے۔) USA اور عالمی برادری کے سامنے اپنا مقصد بیان کرنا، موجودہ صورتحال میں انتہائی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔

اس وقت USA آپ سے مخاطب ہے اور یہ قومی فرض ہے کہ آپ اپنا موقف واضح طور پر پیش کریں۔ ایک بات یاد رہے محض روایتی بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی چند مظاہروں اور مطالبات سے کچھ ہوگا۔ کیونکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور اس کے قائدین و جماعتیں ایک ملک کی نمائندگی کررہے ہیں اور وہ ملک ان کا وطن بلوچستان ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست کے جبری قبضے میں ہے یعنی مقبوضہ ہے۔ اب آپ کا فوکس کیا ہونا چاہیئے؟ USA کے ساتھ براہ راست رابطہ اور موثر و ٹھوس انداز میں اور اس میں کسی بھی قسم کی گھبراہٹ اور تذبذب کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کا مقصد واضح ہے۔ 11 اگست 1947 کے کیس کے ساتھ بہترین انداز میں ۔

حیرت اس بات کی ہے کہ اتنی بڑی شاندار تحریک اور ایک وسیع وطن کے وارث ہونے کے باوجود اتنا وقت کیوں تذبذب میں گذارا، بیرون ملک آج تک کوئی سیکریٹریٹ کیوں قائم نہیں کیا گیا۔ خیر جو ہوا اس پر اب مزید انتظار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب بلوچ قومی تحریک بین الاقوامی ہوچکی ہے اور U.S.A نے ایک طرح آپ کو دعوت دی ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور اس کے رہنما و کارکن ایک ملک کی نمائیندگی کی حیثیت سے اپنی تحریک کی صحیح صورتحال U.S.A کو پیش کرنے کیلئے واشنگٹن ڈی سی میں مرکزی” سیکرٹریٹ ” قائم کریں، اسی کے ذریعے کیپیٹل ہل OWL office سے رابطہ رکھیں۔ اب اس کا قیام ازحد ضروری ہوگیا ہے۔ مزید تاخیر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ کام میں تیزی لائیں پیش رفت کریں، یہ سارے کام کل وقتی ہیں جزوقتی نہیں۔ سب پر ایک ملک کی ذمہ داری ہے اور اپنی قوم کی ملک و قوم کی آزادی کے لئے جزوقتی کام نہیں ہوتے بلکہ مناسب منصوبہ بندی، حکمت عملی، دانائی ، جرآت و بے باکی کو اپنا طرہ امتیاز بنانا ہوگا۔ سہل پسندی اور اپنی مرضی کے مطابق کام انتہائی منافقت کے زمرے میں آتے ہیں اور تباہ کن صورتحال کا سبب بنتے ہیں۔ بہرحال مرکزی سیکرٹریٹ کا قیام اولین ترجیح ہے۔

پھر واضح کروں اس کا قیام USA واشنگٹن ڈی سی میں ہو کہیں اور نہیں اس کے لئے نارتھ امریکہ کے دوست فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔

خطے کے حالات بڑی سرعت اور تیز رفتاری سے تبدیل ہورہے ہیں اور ان کے تقاضوں پر پورا اترنا ہی دانائی ہے۔ ورنہ ہاتھ ملتے رہنا ہوگا اور پھر پچھتاوا تاریخ میں روگ بن جاتا ہے اور قوموں کی تاریخ جرآت و تدبر کا تقاضہ کرتے ہیں پچھتاوے کا نہیں۔

بنیادی عناصر عوامل کے ذریعے پنپتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک کو قدرت و حالات نے کامیابی کے بنیادی عوامل فراہم کردیئے ہیں۔ اور اس بات کے قومی امکانات پیدا ہوچکے ہیں کہ اب تمام تر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ مظلوم و محکوم بلوچ قوم اپنے روشن مستقبل کے لئے امید و یقین کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ شہداء کی مقدس لہو رنگ لائیں گی ان گنت قربانیاں بالکل رائیگاں نہیں ہوگا۔ بین الاقوامی و خطے کے حالات بلوچ قومی آزادی کے حق میں جارہے ہیں۔ ایسا سنہری موقع مظلوم قوموں کی زندگی میں بہت کم آتے ہیں۔

مختصر یہ کہ پیش رفت ضروری اور اٹل ہوچکا ہے۔ تیز برق رفتاری دکھانی ہے، مثبت عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ میں ایک بار پھر کہوں گا اگر مگر کا وقت گذر چکا ہے اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک فیصلہ کن لمحات میں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔