ایک صدا قفس تک – فریدہ بلوچ

358

ایک صدا قفس تک

تحریر: فریدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پیارے بھائی راشد! اس امید کے ساتھ کہ میری آواز اُن بند زندانوں تک پہنچ پائے گی۔ آپ کے نام یہ تحریر لکھ رہی ہوں۔

راشد جان سات مہینے گذر چکے ہیں، تمہاری آواز سنے ہوئے۔ تمہاری مسکراہٹ کو محسوس کیئے ہوئے یا تمہاری کوئی نئی تصویر دیکھے ہوئے۔ تمہیں پتہ ہے گذشتہ سات مہینے کس طرح سے ہم پر قیامت بن کر گذرے ہیں۔ اماں تمہاری یاد میں ہمیشہ دروازے کے ہر ایک دستک پر دوڑنے لگتی ہے کہ میرا لخت جگر آگیا ہے اور پھر مایوس ہوکر افسردگی سے پروردگار کے بارگاہ میں تمہاری سلامتی اور بازیابی کی دعا مانگتے ہوئے آنسو بہاتے بہاتے غم سے نڈھال ہوجاتی ہے۔

راشد تم تو جانتے ہو ہم پر پہلے ہی کتنے قیامت برپا ہوئے ہیں، ہم نے پہلے ہی کتنے مسخ شدہ لاشیں اور جبری گمشدگیاں دیکھی ہیں۔ ہم روزانہ ہی اسی درد و کرب میں مبتلا تھے کہ اچانک سے تم بھی لاپتہ کردیئے گئے۔

اماں کہتی ہیں، جب راشد پیدا ہوا تھا تو پورا گھر خوشی سے جھوم اٹھا تھا، جب وہ پہلی بار رونے لگا تھا تو سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ جب وہ پہلی بار ہنسا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ پورا گھر قہقہے لگا رہا ہے۔ جب راشد پہلی بار بیمار پڑا تھا تو میں ساری رات اس کے سر پر بیٹھ کر اسکی تیمار داری کرتی رہی۔ جب وہ پہلی بار چلنے لگا تھا تو ایسا لگا کہ ہم سب اسکے ہمراہ چل رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں تم جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے مجھے تمہاری فکر ستانے لگی کیونکہ ہمارے علاقے کے حالات ہی ایسے تھے اور ہمارے گھر میں بھی بہت سے لوگ ریاستی ظلم و جبر کا شکار بن چکے تھے۔

اسی لیئے تو تمہیں بیرون ملک روانہ کیا تھا تاکہ تم کم از کم اس ظلم و جبر سے دور رہو اور محفوظ رہو۔ لیکن تم ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم اگر اپنے اوپر ہوئے ظلم پر چاہے بولیں یا خاموش رہیں، ظالم اپنا ظلم کرتا رہیگا۔ لیکن اگر بولینگے تو ہوسکتا ہے اس کے ظلم کو دنیا سمجھ جائیگی اور ہمارے نوجوان، بزرگ، خواتین و بچے لاپتہ نہیں ہونگے اور انکی مسخ شدہ لاشیں نہیں ملینگی۔

کیا اسی دنیا کے لئے تم نے کہا تھا کہ وہ ہمارا ساتھ دیگی، جو تمہارے گمشدگی اور پھر غیر قانونی طریقے سے ظالم کو حوالے کرنے کے بعد خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یا پھر ان لوگوں کے لیئے کہا تھا جنہوں نے تمہارے جبری گمشدگی کے بعد ہم سے منہ پھیر لیا تھا کہ کہیں انکی شہریت کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے یا پھر ان عرب ہمسائیوں سے امید باندھی تھی جنہوں نے تمہیں ایک ایسے گناہ کی سزا دی ہے جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی ہے۔ نہ تمہیں کورٹ میں پیش کیا، نہ ہی تمہاری ملاقات کسی سے کروائی، چھ ماہ اندھیروں میں قید کرنے کے بعد ایک ایسے مقتل گاہ میں روانہ کردیا جہاں قانون، عدالت، میڈیا، انسانی حقوق سمیت انسانیت کی بھی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔ اور ایک انسانی حقوق کے کارکن کو بھی دہشت گرد قرار دیکر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور پھر مسخ شدہ لاش ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہے۔ اور اگر ان ہزاروں لوگوں میں سے کوئی خوش قسمت بازیاب ہو بھی جاتا ہے تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوکر ہمیشہ ڈر اور خوف کی زندگی گذارتا ہے۔

ہاں! آج بھی وہی لوگ تمہارے ساتھ کھڑے ہیں، جو ہمیشہ حق کے لیئے آواز اٹھاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک عالمی سازش کا شکار بننے والے نوجوان کی خاطر آواز اٹھانا مشکل اور خطرناک کام ہے، مگر وہ باہمت ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں جس ریاست سے ہم درخواست کررہے ہیں وہاں درخواستیں نہیں پہنچتیں، مگر پھر بھی وہ کوشش کررہے ہیں اور انہی لوگوں کی ہمت ہماری بھی ہمت ہے۔ ہم بھی اسی امید میں ہیں کہ ہماری مظلوم قوم ہماری آواز بن کر دنیا کو یہ بتانے میں ہماری کوشش کریگی کہ راشد ایک بے قصور انسان ہے جسے صرف بلوچ ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔

میں پر امید ہوں کے دنیا اپنی غلطی کو مان کر اپنے کیئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا جرات کریگی اور ہماری قوم، نوجوان اسی طرح سے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کی خاطر اور اس ظلم و جبر کے خلاف ایمانداری سے آواز اٹھائینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔