کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو 3617 دن مکمل ہوگئے

214

پاکستانی میڈیا میں بلوچستان کے حوالے سے حقائق دکھانے کی جرات نہیں ہے – ماما قدیر بلوچ

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب احتجاج کو 3617 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکنان بابل بلوچ، غفور بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نسل کش فورسز کی کاروائیاں شدت اختیار کررہی ہے۔ فوجی کاروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں پر بہیمانہ بمباری، گھروں کو نذر آتش کرنا، خواتین و بچوں اور بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا اور انہیں لاپتہ کرکے بعد میں ان کی تشدد زدہ لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے ویرانوں میں پھینکنا، اپنےزرخرید کارندوں کے ذریعے بلوچ طلبا، سیاسی رہنماوں اور کارکنان، صحافیوں اور دانشوروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شامل ہے۔

انہوں نے کہا فوجی کاروائیوں میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ان تمام بلوچ نسل کش کاروائیوں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے پھر بھی پاکستانی جمہوریت اور انسانی حقوق کی دعویدار تمام سیاسی، مذہبی جماعتیں، لبرل دانشور حلقے اور میڈیا مکمل طور پر خاموش ہیں۔

ماما قدیر نے کہا پاکستانی الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے بلوچستان میں امن، ترقی اور خوشحالی ہے اور دودھ و شہید کی نہریں بہہ رہی ہے لیکن حقائق اس سے بلکل برعکس ہے جس کو میڈیا میں دکھانے کی جرات نہیں ہے۔