لاپتہ افراد کا نوحہ – نوید بلوچ

397

لاپتہ افراد کا نوحہ

نوید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج سے قریباً 14 سال قبل ایک خاتون جس کا نام “آمنہ مسعود جنجوعہ” تھا، اپنے خاوند “مسعود جنجوعہ” کی جبری گمشدگی کے خلاف کھڑی ہوئی. اس کا الزام تھا کہ کچھ خفیہ اداروں نے مسعود جنجوعہ کو بغیر کسی جرم کے زبردستی اغواء کیا ہے. اس خاتون کے آواز بلند کرتے ہی دوسرے بہت سے لوگ بھی احتجاج کے لیئے آئے، جن کا کہنا تھا کہ ان کے لواحقین کو بھی جبری طور پر مختلف مقامات سے اٹھایا گیا ہے. ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بلوچستان سے تھا. اور پھر لوگوں کے گمشدہ ہونے کا سلسلہ بڑھتا گیا. لواحقین احتجاج کرتے رہے لیکن اس کا زیادہ فائدہ نہ ہوا اور ان کی دستگیری کو کوئی نہ آیا.

اس سے پہلے صرف مردوں کو ہی جبراً اٹھا کر لے جایا جاتا تھا لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے مردوں کے ساتھ ساتھ بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور طالب علموں کو بھی گمشدہ کیا جا رہا ہے.

پہلے تو یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ تھا لیکن آہستہ آہستہ خیبر پختونخواہ اور اب سندھ میں بھی یہ ہو رہا ہے. وہاں کے لوگ آئے روز احتجاج کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں.

ان کا صرف یہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے. اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کو سخت سزا دی جائے لیکن یوں غائب نہ کیا جائے۔ اگر ہم اپنے آئین پر بھی نگاہ ڈالیں تو اس کے آرٹیکل 9 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی مرضی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر زندگی گذار سکتا ہے اور آرٹیکل 10 کے مطابق کسی بھی شہری کو زبردستی کوئی بھی ادارہ نہیں لے کر جا سکتا. اگر لے جائے تو اسے 24 گھنٹوں کے دوران علاقے کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے. پھر چاہے جو اس نے جرم کیا ہے اس کے مطابق سزا دی جائے.

افسوس کہ انصاف کی بجائے اس مسئلے پر جو بات کرے اسے “غدار” کا لقب ضرور ملتا ہے. ایسے لوگوں کے نزدیک جو شخص ریاست کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا کہے وہ غدار ہے!
ہر سوچنے والا غلط ہے!
ہر سوال اور حق بات کرنے والا غدار!
اس نظام کو صرف وہ رعایا چاہیئے جو کہ ان کی ہر پالیسی پر تالیاں بجائے.

حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن یہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں. انتخابات سے پہلے تو یہ لوگ ان مسائل کے حل کیلئے مسائل حل کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں یا پھر یہ کہہ لیں کہ تالے “لگا دیے جاتے ہیں”. یہ لوگ ان جھوٹے وعدوں کو اقتدار کی سیڑھی کے لیئے استعمال کرتے ہیں.

ہمیں مل کر ان مسائل کے حل کی جانب بڑھنا چاہیئے اور تعمیری نتیجہ مد نظر رکھ کر بات کرنی چاہیئے. ہمیں خون ریزی کی طرف نہیں بڑھنا کیونکہ پہلے ہی اتنا خون بہہ چکا ہے کہ مائیں دروازے کی دستک سے ڈرتی ہیں کہ کہیں پھر کسی بیٹے کی لاش نہ آئی ہو. ماضی میں ہم نے بہت سی جانیں گنوائی ہیں لیکن ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ رہے.اس سے پہلے کہ پانی مزید سر سے گذر جائے حالات اور وقت کے مطابق ریاست کو ایک ماں کا کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ ریاست قوم سے تشکیل پاتی ہے کھنڈروں اور صحراؤں سے نہیں.
انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کریں. ظلم اور جبر سے بچا جائے کیونکہ جبر سے مسائل کے حل کی بجائے صرف بغاوت جنم لے گی. ہم انسانی فطرت کو حقوق اور انصاف سے ہی بدل سکتے ہیں ظلم اور جبر سے بالکل نہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔