فدائی اسد جان ایک مستند رہنماء – برزکوہی

547

فدائی اسد جان ایک مستند رہنماء

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میں جو بھی ہوں، میں جو بھی بنتا ہوں یا بننا چاہتا ہوں، اس میں کسی نہ کسی حد تک میری تربیت، معاشرہ اور ماحول کا ضرور دخل اندازی ہے، مگر مکمل ہرگز نہیں، اس میں ہر جگہ میری سوچ کی بالادستی ہوتی ہے گوکہ میری سوچ بھی میری وراثت، تربیت، معاشرے اور ماحول کی پیداوار ہے مگر پھر بھی ان تمام حقائق سے ہٹ کر میری سوچ، میرا زاویہ نظر اور نقطہ نظر کے پابند ہوتا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے میرا رویہ جنم لیتا ہے اور میرے رویئے سے میرے اعمال و کردار کی پرورش ہوتی ہے، پھر وہی کردار ہی میرا اصل کردار ہوتا ہے۔

بقول اسد جان “میں تاریخ میں کردار کے حوالے سے جو بننا چاہتا تھا، جو خواہش رکھتا تھا، آج وہ من و عن مکمل ہورہا ہے۔” پھر کیا اسد جان کو میسر وہ وارثت، وہ ماحول، وہ تربیت، وہ معاشرہ، دوسروں کو دستیاب نہیں تھا اور دستیاب نہیں ہے؟ پھر کیوں سب ایسے بن نہیں سکتے ہیں؟

عمر کے لحاظ سے جوان و پختہ، تجربے کے لحاظ سے بہت سینئر، ذمہ داری کے حوالے سے ایک مضبوط ارادے کے مالک، جنگی مہارت سے لیس کمانڈر، سیاسی علم و شعور کے حوالے سے ایک دانشور، پھر بھی نہ جنت و دوزخ اور نہ گناہ و ثواب، نہ دنیا اور نہ آخرت کی لالچ۔ سب سے بے نیاز اپنی جان کو بخوشی اور شعوری طور پر قربان کرنا آخر کیا ہوسکتا ہے؟ اگر شعور و احساس، مخلصی، بے غرضی، اجتماعی درد اور ادراک ہے؟ تو پھر کیا ہم ان چیزوں سے ابھی تک مفلوج و محروم ہیں؟ اگر نہیں پھر کیا ہے؟

کوئی مانے یا نا مانے، بلکہ لاکھ من گھڑت دلیل و جواز اور بہانے پیش کرے اور کرتا رہے، کم از کم میں کہتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ ہم ابھی تک شعور و احساس، مخلصی، بے غرضی، اجتماعی درد، اور ادراک کے اس مقام پر کھڑے نہیں جس کا دعویدار ہیں۔

انسان اپنی ذات سے کبھی بھی باہر نہیں آسکتا ہے کیونکہ انسان خود اپنی ذات میں قید ایک ذات ہی ہے، مگر حقیقی انقلابی کبھی بھی اپنی ذات کے قید میں نہیں رہتا ہے، جب بھی انسان اپنی ذاتی و خاندانی قید میں مقید ہوگا اور ذاتی و خاندانی سوچ حد سے بڑھ کر انسان پر حاوی ہوگا، پھر انقلابی پن کے معیار اور خصلت سے انسان محروم ہوگا گوکہ انقلابیت کا دعویٰ و چرچا کسی حدتک کیوں نہ ہو اور خوبصورت انداز میں بیان کیوں نہ ہو مگر حقیقت اور تاریخ کے سامنے کبھی قابل قبول اور تسلیم شدہ نہیں ہوگا۔

تاریخ و مورخ وقت اور حقیقت کسی بھی دکھاوے، جھوٹ، مصنوعیت، فن کاری، حربہ سازی اور چرب زبانی و بلند بانگ دعوؤں وغیرہ کے بہکاوے اور دکھاوے میں نہیں آتے ہیں البتہ انسان کمبخت ان چیزوں کا وقتی ہی صحیح بلکہ اکثر مستقل شکار ہوتا ہے۔

اسد دکھاوے، جھوٹ، عوامی آراء، مصنوعیت، فن کاروں، حربہ سازی اور دکھوں کی بازار میں کیا تھا اور کون تھا؟ مگر تاریخ و مورخ وقت اور حقیقت نے اسد کو کیا بنا دیا؟ حتمی فیصلہ قابل قبول اور تسیلم شدہ آخر کار وہی ہوا جو اسد کی سوچ تھی اور سوچ سے جنم لینے والا کردار ہوگیا۔

ہیرو کون تھے اور کون ہیں؟ مگر آخر کار اور حتمی تاریخ و مورخ وقت اور حقیقت نے اسد کو ہیرو و مستد رہنما تسلیم کرلیا شاید بلکہ در حقیقت اسد دعوؤں اور دکھاوے میں کچھ نہیں تھا، مگر آج سب کچھ ہے۔

ہم اکثر کیفیت و حالت اور سنی سنائی باتوں، جھوٹ و فریب، سبز باغ، خیالی تصوارت اور ماحول کا شکار ہوتے ہیں پھر ایک مقام پر شعور نہیں بلکہ وقت ہمارے سامنے یہ ثابت کردیتی ہے کہ ہم غلط رخ اور غلط سمت میں محو سفر ہیں، پھر انا، ضد اور ہٹ دھرمی کے بھینٹ چڑھ کر ہم بجائے صحیح رخ اور صحیح سمت میں سفر شروع کریں بلکہ مزید غلط رخ اور غلط سمت میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں، یہ عمل خود انسان کے کردار کا زوال ہی ہوگا اور زوال کی تاریخ کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زوال کی اصل اور بنیادی سبب یہی ہے۔

حقیقت کو جان کر حقیقت کو تسلیم نہ کرنا، حقیقی سمتِ سفر سے محروم ہونے کی واضح علامت ہوتا ہے۔

اسد مکمل پرامید تھا، بہادر تھا، احساس و ادراک سے لیس تھا، علم و شعور سے مسلح ہوکر انتہائی باحوصلہ تھا، قومی آزادی اور قومی جنگ کی کامیابی پر آپ کا مکمل ایمان و عقیدہ اور دشمن کی شکست پر اسد کو پورا پوار یقین تھا۔

اگر ان چیزوں پر کوئی بھی تذبذب اور عدم اطمینان کا شکار ہے، ناامیدی و مایوسی کی حالت میں مدہوش ہے، کیا وہ اسد سے زیادہ پرفکر، مخلص، بے غرض، با علم، باشعور، بہادر، درد و ادراک اور احساس رکھنے والا ہوسکتا ہے؟ کم از کم میرے نزدیک ہرگز نہیں بلکہ یہ واضح طور پر کم علمی، لاشعوری، خود غرضی، اجتماعی سوچ و احساس، درد اور ادراک سے محرومی اور قومی فکر و مخلصی کی کمی اور کمزوری کی واضح علامت ہے۔

اسد، بے شعوری، خودغرضی، محدودیت، لاپرواہی، ذاتی سوچ کے بتوں کو توڑنے والا دیوانہ تھا، وہ لہو سے لکیر کھینچ کر راہ دکھلانے والوں میں سے تھا، وہ سروں سے سنگِ راہ رکھ کر مسافروں کو منزل دکھلانے والا رہنما تھا۔ وہ اپنے نظریئے پر چلا اور کرکے دِکھادیا اور بتاگیا کہ اگر نظریہ شفاف ہو تو پھر تھیوریوں کے پہاڑ کھڑے نہیں کیئے جاتے، بس قدم اٹھاکر گامزن ہوئے جاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔