سلگتے بلوچستان کا ہمدرد کون؟ – کاظم بلوچ نوکنڈی

292

سلگتے بلوچستان کا ہمدرد کون؟

کاظم بلوچ نوکنڈی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان، جس کا نام آتے ہی ذہن و گمان میں پسماندگی، درماندگی، لاچارگی، بھوک و افلاس اور آج کے تیز رفتار ترقی کے دور میں ایک سماجی، معاشی طور ایک گُھپ اندھیرے اور سناٹے و خوف کا راج ہے گوکہ یہاں کے مختلف معدنی وسائل و ساحل کا اس وقت پورے خطے اور دنیا میں چرچہ عام ہے، جہاں اگر ماضی کے اوراق کو پلٹا جائے تو ایک بھیانک ماضی جس میں خون ریزی عدم اعتماد؛ پس ماندگی، سیاسی و جمہوری نظام سے اکتاہٹ، سراسیمگی کے دریچے کھلتے ہیں۔ جن کا تسلسل آج بھی کئی سیاسی، سماجی و معاشی اعتماد کی کمی کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اس وقت بلوچستان، بلوچ مخلوق، اس خطے کا اصل ہمدرد، اصل خیر خواہ، اصل درد وار کون ہے؟ جو اس خطے میں سیاسی، سماجی، معاشی، پسماندگی کی جنگ اور اس خطے میں فکر و زانت شعور کی آبیاری کی جنگ لڑرہا ہے اور یہ جدوجہد کس طرح اس خطے، یہاں کے بسنے والے باسیوں اور اس نظام کے لیئے بار آور ہے، جنہوں نے ہمیشہ متحرک سیاسی و سماجی جدوجہد کرکے اپنے لوگوں کے مجموعی مسائل سے نکالنے کی بقاء کی سیاسی و جمہوری بقاء کی جنگ قلم اور سیاسی سوچ سے مسلح ہوکر لڑی ہے اور آج اس ملک کے ایوانوں میں اس ملک کے قانون و آئین کے تحت جہد مسلسل کے ذریعے حصہ بن کر لڑرہے ہیں۔

ہاں! ہم بات کرتے ہیں بلوچستان کی جہاں اس وقت پس ماندگی کا راج ہے، بلوچستان کا کونہ کونہ ایک گھونٹ صاف پانی؛ صحت کے حوالے سے ایک پیناڈول کی گولی ؛ ایجوکیشن کے حوالے سے ایک اسکول اور ایک ٹیچر کی منتظر ہے اور آج بھی اکیسوی صدی میں اس وطن کے بیٹے ایک وقت کی روٹی اور پازوار سے محروم ہیں۔ جس کا تعلق اس ریاست کے اختیار داروں اور اس ریاست کے قائم کردہ پالیسی ساز اداروں سے ہے جہاں الیکشن اور ووٹ کے ذریعے نمائندے چنے جاتے ہیں، جو اس صوبے کے مفلوق الحال لوگوں کو ترقی دینے کے ذمہ دار ہیں؛ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس خطے، اس وطن اور اس سرزمین سے مخلص رہنے والے سیاسی رہنماوں کو ہمیشہ ان ریاستی اداروں سے دور کھا گیا ہے، جہاں ان اداروں میں بیٹھ کر شعور سے لیس نوجوانوں کو اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع ملتا، جو ایک عدم اعتماد کی فضاء ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس کے اس صوبے پر مختلف اشکال میں اثرات پڑے ہیں اور اس صوبے سے مخلص سیاسی قیادت جن پر اس صوبے کا عوام کا اعتماد ہے، ہمیشہ اس قیادت کو سیاسی طور دیوار سے لگانے کی کوشش رہی ہے تاکہ اس صوبے کے اصل مخلص سیاسی قیادت کو زیر عتاب رکھ کر اس صوبے کی سیاسی سماجی و عوامی خدمت سے دور رکھا جاسکے۔

یہاں نیپ کی عوام دوست حکومت رہی، جسے برطرف کیا گیا۔ یہاں سردار اختر جان مینگل کی حکومت رہی جسے توڑا گیا، یہاں حقوق کی جمہوری جنگ میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا گیا، جس کا اصل ماخذ اس سرزمین اس صوبے یہاں کے عوام سے مہر محبت تھی، وسائل و ساحل سے مالا مال صوبے کے عوام آج انتہائی غربت، پسماندگی، معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور صوبہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہیں اس صوبے یہاں کے عوام کے مسائل و مصائب سے کوئی غرض نہیں، جو ہمیشہ روایتی طور بلوچستان کے عوام پر مسلط رہے ہیں، جنہوں نے اس صوبے پر حکمرانی کی ہے اور جن کی غلط سیاسی ؛ معاشی و معدنی فیصلوں کے عذاب اس صوبے کے عوام بھگت رہے ہیں، جب بلوچستان و اس صوبے کی اصل قیادت نے ہمیشہ اس صوبے کے عوام یہاں کے لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل اور یہاں کے وسائل پر دسترس کی بات کی ہے۔

2018 کے گذشتہ الیکشن کے بعد بلوچستان میں ایک کٹھ پتلی صوبائی حکومت بلوچستان کے عوام پر عذاب کے طور پر نازل ہوچکی ہے، اس نومہینے میں بلوچستان کے عوام کو مزید پسماندگی، درماندگی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ جہاں اس نااہل و نالائق صوبائی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے اس صوبے کے اسی ارب روپے لیپس ہوچکے ہیں۔ جہاں ایک غریب صوبے کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے، جس کے نااہل اختیار داران ان پیسوں و فنڈز کا اس صوبے کے عوام کے لیے بہتر استعمال نہ کرسکے اور ان نو مہینوں میں صوبائی حکومت محض ٹوئیٹر پر حکومت چلارہی ہے، جہاں بلوچستان میں سوشل کمیونکیشن اور ٹوئیٹر کا استعمال دو فیصد سے بھی کم ہے۔

اب جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان کے صوبائی اسمبلی میں مضبوط اپوِزیشن کے طور موجود ہے اور مختلف سیاسی سماجی و معاشی ایشوز کو ہائی لائیٹ کررہی ہے، جہاں ایک قانون ساز ادارہ پہلی بار متحرک نظر آرہی ہے، جس سے کلوننگ شدہ گروہ باپ کے اختیار داران کو اپنے نااہلی و نالائقی چھپانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔

ماضی قریب سے لیکر 2018 کے الیکشن کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی نے سیاسی حکمت عملی اور یہاں کے مفلوک الحال لوگوں کی مختلف مشکلات کو سامنے رکھ کر چھ نکات مرکزی سرکار کے سامنے پیش کردیئے کہ ان چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کو کچھ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے، جس پر معاہدہ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کو نیشنل اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دیا گیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے وزارت و مراعات لینے کے بجائے آزاد بینچز پر بیٹھ کر ہمیشہ اس صوبے، اس ملک کے مظلوم طبقات اور اصولوں کی بات کی اور اصولی سیاسی فلسفے پر کار بند ہوکر حق گوئی کی صدا بلند کرتے رہے، جو آج تک جاری ہے اور بلوچستان میں اپوزیشن میں رہ کر صوبائی اندھی حکومت کو آئینہ دکھاتی رہی ہے۔ اب جبکہ ملک کی سیاسی فضاء مختلف محاذ پر بدلتی جارہی ہے اور مرکزی سرکار مختلف اپویشن جماعتوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہونے جارہی ہے، جس کے بعد بلوچستان میں باپ کی حکومت کو جان کی بنی ہوئی ہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ کے مختلف بیانات جو بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی حوالے سے اشارے ہیں، جس پر جام کمال ؛ سرفراز بگٹی اور لیاقت شاہوانی جیسے لوگ سیخ پا ہوکر سوشل میڈیا میں آکر سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جو ان کی سیاسی ناکامی کو ظاہر کررہی ہے۔

جب تک بلوچستان میں حقیقی سیاسی قیادت یہاں کے عوام سے مخلص کیڈر کو موقع نہیں ملتا، نام نہاد کرپٹ لوگوں کی جم غفیر سے اس صوبے، یہاں کے عوام اور یہاں کے پسماندہ لوگوں کی خدمت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہاں پر امن و امان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں جبکہ باپ جیسی جماعتوں اس صوبے میں مزید انتشار کا سبب بن رہی ہے۔

اس صوبے میں ترقی و مسائل حل کرنے کی صلاحیت اس صوبے سے مخلص قوم دوست قیادت کے پاس ہے، جو در اصل یہاں کے لوگوں کے ہم درد ہیں اور بلوچستان کے ستر سالہ سیاسی سماجی معاشی مسائل اور امن و امان کو بحال کرسکتے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں کا سیاسی اعتماد بحال کرسکتے ہیں، وگرنہ باپ اور اس قبیل کی جماعتوں کا مقصد لوٹ مار، کرپشن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور ان جیسے جماعتوں کی وجہ سے بلوچستان میں دور دور تک ترقی کا گمان نہیں اور نہ ہی یہاں کی سیاسی سیاسی قیادت حقیقی سیاسی جماعتیں اور نوجوان ان جیسے لوگوں پر کوئی اعتماد رکھتی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے بلوچستان روز بروز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔