دیوانہ ساچو – زمین زھگ

435

دیوانہ ساچو

زمین زھگ

دی بلوچستان پوسٹ

بہادر, مخلص, سرزمین کا عاشق, بھائیوں کا بدلہ لینے والا ساچو کے لیئے کوئی بھی لفظ استعمال کیا جائے وہ کم ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ ساچو جان آپ بلوچ تھے، ہاں بلوچ تھے! آپ وہ بلوچ جو اچھی طرح سے واقف تھا کہ غلامی کیا ہے؟ اور ایک آزاد ریاست کی قدر و قیمت کیا ہے؟ اسی لیے ہمیشہ دھرتی ماں کے لیے کھڑا رہتا تھا، ہمہ وقت ہر طرح سے تیار رہتا تھا۔ اسے ہمیشہ اپنے غلام ہونے کا اور اپنے قوم کی لاچاری اور بے بسی کا احساس تھا۔ وہ ایک انقلابی دوست تھا۔

خلیل یعقوب عرف ساچان بلوچ 8 جنوری 1983 کو محمد یعقوب کے گھر تنزگ کیچ میں پیدا ہوئے ۔ 1990 میں گھر والوں سمیت اپنے آبائی علاقے سے منتقل ہوکے ڈگاری کہن میں رہائش پذیر ہوئے ۔ اپنی تعلیم اپنے علاقے کے ہائی اسکول ڈگاری کہن سے میٹرک پاس کرنے کے بعد کیچ بوائز ڈگری کالج تربت سے ڈگری لے کر اپنی زندگی کی پہلی جدوجہد کا آغاز بی ایس او امان سے 2004 میں کیا۔ اور 2005 میں اسکے گھر والوں نے زبردستی اسے مسقط بھیج دیا۔ وہاں وہ فوج کی ملازمت پر فائز ہوا۔ اگر وہ چاہتا تو اس ملازمت سے فائدہ اٹھا کر اپنے گھر والوں سمیت ایک پر آسائش زندگی گذار سکتا تھا کیونکہ میں نے سنا ہے کہ عموماً انسان میں لالچ ہوتا ہے لیکن ساچو ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ پیسہ جتنا بھی ہاتھ آئے لیکن وہ پیسے گلے میں غلامی کے لٹکتے ہوئے تختی سے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا سکتے۔ اپنے قوم کی بے بسی اور لاچاری کو دیکھتے ہوئے وہ کیسے پردیس میں چین سے بیٹھ سکتا تھا؟ بس پھر ہوا یوں کہ کے وہ لوٹ آیا اپنے مادر وطن اپنے بلوچستان, ایک بار پھر اپنے سرزمین کے شیر دلوں سے جا کر ملا ان سے قدم سے قدم ملایا۔ 2007 میں بلوچ رپبلکن پارٹی(BRP ) میں شامل ہوا۔ اپنے کبھی نہ رکنے والے قدموں سے قدم بہ قدم جدوجہد میں جھٹ گیا۔

وہ ہمیشہ اس بات سے واقف تھا کہ موومنٹ کی زندگی ہماری زندگی ہے، اگر مومنٹ ختم ہو گئی تو ہماری کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ 2009 کے آخر میں وہ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آزاد میں شامل ہوا۔ اور 2010 میں کیچ تربت زون کا صدر منتخب ہوا۔ ایک سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے وہ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھا، اسی لیئے وہ یا تو کبھی شال میں ہوتا تھا تو کبھی بلوچستان کے دیگر علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے غرض سے ہمہ وقت پیش پیش رہتا تھا ۔

28 اگست 2010 کو انکے بڑے بھائی جمیل یعقوب بلوچ تربت سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء ہوئے بعد ازاں 10 فروری 2011 کو انکو شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاش کو شہید کامریڈ قیوم کی لاش کے ساتھ ہیرونک میں پھینک دیا گیا۔ ماں کی ممتا اور قوم کی غلامی نے اسکے جدوجہد کو اور زیادہ تقویت دیا اور بالآخر وہ مجبور ہوا کہ پہاڑوں کو اپنا مسکن، گھر سمجھے اور آسمان کو اپنا چھت۔ 2011 میں ایک سیاسی شخصیت(ساچو) مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شامل ہوا۔ ہر وقت دشمن سے لڑنے میں آگے رہتا تھا, کبھی کبھی مجھے فخر ہوتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایسے جنگجو اور اتنے پر خلوص دوست کی یاری میں رہا۔

میں نے ہمیشہ اسے کتابوں کے ساتھ ہی دیکھا، یہی کتابیں اس کے لیئے روشن مشعل کی طرح تھے, خلوص کی مثال تو ساچو سے کوئی لے ہی نہیں سکتا۔ وہ ہمہ وقت ہنستا مسکراتا رہتا تھا, سائجی سے لیکر مند, گومازی, مزن بند تک کے ہر پہاڑ اور چٹان اس کے خلوص کی گواہی دیتے ہیں۔

25 ستمبر 2016 کو اسے شہید کیا گیا, وہ ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دھرتی ماں کی گود میں پر سکون نیند سو گیا۔ ہر ساتھی کو اس نے بچوں کی طرح پیار دیا, میرے لیئے وہ ایک استاد, ایک رہنما اور کبھی ایک مکمل انقلابی, ایک حوصلہ افزائی کرنے والا، جس نے ہمیشہ ہمارا حوصلہ بڑھایا لیکن میں سخت ناراض ہوں آپ سے کیونکہ آپ نے جانے کے لیے بہت جلدبازی کی۔ آپ کی کہی ہوئی بات آج بھی اچھی طرح یاد ہے مجھے، آپ نے کہا کہ ” میں ریاست سے اسی طرح اور 37 سال تک لڑ سکتا ہوں”۔ ماں کے زخم اب بھی تازہ ہیں, جمیل اور طارق کے بعد آپ نے ایک اور زخم دل پہ دیا۔ ابھی تک امی جان آپ کی شہادت سے بے خبر ہے۔ ساچو کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ آپ کے چلے جانے کے بعد دَرؔو بات کرتا ہے اور چلنے بھی لگا ہے؟ ساچو جان گُلسر ہر وقت بس یہی سوال پوچھتا ہے کہ ابا جان کہاں ہیں؟

کیا آپ کو اس بات کا پتہ ہے کہ ہماری تحریک کہاں تک پہنچی ہے؟ یقیناً آپ اس بات سے تو باخبر ہوں گے کہ پوری پُلک (دشت) سوگوار ہے, آپ جیسے بیٹے کے لیے مادر وطن راہ تک رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کیچ کی ٹیلگؔ تھے, آپ کے جانے کے بعد کیچ خون کے آنسو روتا ہے, آپ کے بغیر مند بیوہ ہے۔ دل اب بھی نہیں مانتا کہ آپ کے نام کے ساتھ شہادت کا لفظ لکھوں یا نہ جانے کیوں مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح سے ہمارے ساتھ ہو۔ دشمن بےحد خوش ہے مادر وطن کے سینے پہ اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔ سب ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہم پاگل ہیں کہ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں, میں کہتا ہوں اگر اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا یا ایک آزاد ملک کا تصور کرنا گناہ ہے تو آج دنیا میں کوئی بھی ملک آزاد نہ ہوتا یہاں تک کہ آج بھی کچھ قومیں اپنی آزادی کی لیے جنگیں لڑ رہے تاکہ اپنی قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی دلا سکیں ۔

اگر اپنی ملک و قوم کو آزادی دلانے کے لیے جدوجہد کرنا اور اس جدوجہد میں اپنے آپ کوقربان کر دینا پاگل پن ہے تو علی عمار, بھگت سنگھ, چے گویرا, سقراط سمیت ہر وہ انسان پاگل ہے، جس نے آزادی کے لیئے اپنے سر قربان کر دیئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہوگا اور پھر اس لالچی دنیا کو تھوڑا سائیڈ میں کرکے سوچنا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ غلامی کیا ہے؟ کیونکہ غلام محض انسان نہیں ہوتے، بلکہ انکی سرزمین, وہ سمندر جو ایک ملک کے باشندوں کے لیے ایک آئینہ ہے اور انکی سرزمین کی ہر شے قیدی اور غلام ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔