احتجاجی کیمپ نذرِآتش کرنا لاپتہ افرادکے لواحقین کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے – بی این ایم

173

ذاکرمجید کی جبری گمشدگی کے دس سال پورا ہونے کے موقع پر احتجاجی کیمپ کونذد آتش کرنا اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ پاکستانی بربریت میں مزید اضافہ ہوگا۔ بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کونذرِآتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ جون کی رات کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کیمپ کو ایک ایسے دن نشانہ بنایا گیا جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی رہنماء ذاکر مجید کی پاکستان کے ہاتھوں اغواء اور گمشدگی کو دس سال مکمل ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے کیمپ کونذرِآتش کرنے کے لئے اس دن کا انتخاب بلوچ قوم کے لئے کھلا پیغام ہے کہ ان کے انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں کے لئے خلاف آواز اٹھانے کے جمہوری و انسانی حق کو بھی ختم کیا جائے گا۔ یہ قابض پاکستان کے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افرادکے لواحقین کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے اور ایسے مذموم کوشش پاکستان کے مکروہ اور بھیانک چہرے کو مزید عیاں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو دس سال مکمل ہوچکے ہیں اور ان کا خاندان بلوچستان کے طول و عرض میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرح بڑے کربناک حالات سے گزر ر ہے ہیں۔ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے لواحقین کی تحریک اور پر امن احتجاج گزشتہ دس سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اس ضمن میں خود ذاکر مجید کی بہن بانک فرزانہ مجید نے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ تا اسلام آباد لانگ مارچ کی۔ اس طویل اور تاریخی پیدل لانگ مارچ کو نہ صرف پاکستانی میڈیا نے کوریج نہیں دی بلکہ پاکستان کی جانب سے لانگ مارچ میں شریک افراد کو بارہا نشانہ بنانے کی بہیمانہ کوششیں بھی کی گئیں۔ ایک دہائی کا عرصہ گزرنے کے باوجود ذاکر مجید کی عدم بازیابی باعث تشویش ہے۔ اس بارے میں آواز اُٹھانے والے سبین محمود کو بھی شہید کیا گیا اور ان پر واحد پروگرام کرنے والے پاکستانی صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ کیاگیا۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں لاپتہ افراد اور لواحقین کی تاریخ ساز جدوجہد کے دوران پاکستانی کہلائے جانے والے عوام کا رویہ بھی پاکستانی حکومت کی طرح غلام اور آقا کی رشتے کی بہترین عکاسی کرتا رہا۔ وہ بلوچ کے درد سے یکسر بیگانہ رہے۔ یہ رویہ اب بھی جاری ہے۔ ایسے عوامل ثابت کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف مقبوضہ ہیں بلکہ بلوچستان اور پاکستان کی عوام اور ان کی روایات آج تک بھی ایک دوسرے سے صدیوں کے فاصلے سے دور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وائس فار مسنگ پرسنز کی کیمپ کو بھی ایک دہائی مکمل ہوچکی ہے۔ اس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر مسلسل علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر تاریخ رقم کر چکے ہیں۔ اگر کسی مہذب ملک و معاشرے میں یہ احتجاج ریکارڈ کرچکے ہوتے تو انہیں انعام واکرام سے نوازا جا چکا ہوتا، مگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور انسانیت کی شرف کا اندازہ ایسے واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پرامن اور جمہوری سیاست اور احتجاج کا حق بھی ہمیشہ کے لئے مسدود کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس احتجاجی کیمپ پر مسلسل حملے ہوتے ہیں۔ احتجاجی کیمپ کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ گذشتہ سال دسمبر میں لاپتہ افراد کے خاندانوں کو احتجاج اور دھرنے سے روکا گیا۔ وہ نام نہاد ”آزاد“ عدلیہ اور”آزاد“میڈیا کے منہ پر تھمانچہ ہیں کیونکہ نہ عدلیہ ایسے واقعات کا نوٹس لیتا ہے اور نہ ہی میڈیا کو حقائق سامنے لانے کی جرات ہوتی ہے۔

بی این ایم کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے ایسے رد عمل حسب توقع ہیں۔ ہمیں پاکستان سے کسی بہتری یا انسانی حقوق کی احترام کا کوئی امید بھی نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کی بربریت کا نوٹس لیں۔ تمام دنیا اس امر کا بخوبی مشاہدہ کرچکا ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک انسانی حقوق کی تنظیم ہے اور پاکستان کے فورسزکے ہاتھوں لاپتہ افراد کی بازیابی کا متمنی ہے لیکن پاکستان نے اس انسانی حقوق کے تنظیم کے احتجاج سلسلے کو بھی طاقت سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔