ہماری پرامن اور شعوری سرگرمیاں بلوچ دشمن زہنیت کو گراں گزر رہی ہے – بی ایس او 

132
طلبا سیاست کے خلاف کریک ڈاون کے سلسلے تعلیمی مسائل میں اضافہ یونیورسٹی سطح پر سیٹوں میں کمی اور دیگر مسائل کے حوالے سے میڈیا باشعور طبقات سیاسی جماعتوں بلوچستان اسمبلی کی خاموشی سوالیہ نشان ہے ۔ 
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے بی ایس او کی پرامن جدوجہد اور شعوری تنظیمی سرگرمیاں جمہوریت اور بلوچ دشمن زہنیت کو گراں گزررہی ہےں تعلیمی اداروں میں تنظیمی پروگرامز پر پابندی کے اعلان کے بعد اب مختلف اضلاع میں بی ایس او کے کارکنوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کی گئی ہے خدشہ ہے کہ پابندی کے آڑ میں تعلیمی اداروں کو مفلوج بنانے، اسکالرشپس کی بندش، فیسوں میں اضافے کے بعد اب اپنی مدد آپ کے تحت کتاب اور قلم کا سہارا لیکر آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنے والے طلبا کے خلاف انتقامی طرز عمل کو تیز کرکے زمین تنگ کرکے تعلیم کے دروازے بند اور ظلم کو جبر کا شکار بنایا جائے گا ان عوامل کا دنیا بھر کے تمام انسان دوست تنظیموں، میڈیا، سیاسی و سماجی اداروں کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے خدشات نقصان میں تبدیل نہ ہو ۔

انہوں نے مزید کہا ہے بی ایس او کے کارکنوں کے خلاف انتقامی طرز عمل کے شروعات تعلیمی اداروں میں شعوری پروگرامز پر پابندی کا مقصد بلوچ قوم مستقل طور پر غیر سیاسی سماج دشمن کرپٹ لوگوں کے حوالے کرنا ہے تاکہ بلوچستان میں سیاست کو سمجھنے جاننے اور سوچنے والوں کا مکمل قحط ہو اور کوئی سیاسی کیڈر پیدا نہ ہو جو سماج دشمن خوشامدی طرز سیاست کا شعور کے طور پر مقابلہ کرے ایسے منفی اقدامات کا سلسلہ بی ایس او کے قیام سے لیکر آج تک جاری و ساری رہی ہے لیکن حالیہ نوٹیفکیشن کے بعد بی ایس او کے کارکنوں کو تنگ کرنے کے سلسلے میں تیزی آچکی ہے خدشہ ہے کارکنوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گی ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایس او نے ہر دور میں پرامن شعوری جدوجہد کو تقویت جذباتی نفرت اور منفی عوامل کی حوصلہ شکنی کی ہے موجودہ دور میں بی ایس او تعلیمی بہتری تعلیمی اداروں میں حقیقی اصلاحات لانے کی مہم مختلف منفی تعلیم دشمن سرگرمیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے ۔

ترجمان نے مزید کہا کہ طلبا سیاست کے خلاف کریک ڈاون کے سلسلے تعلیمی مسائل میں اضافہ یونیورسٹی سطح پر سیٹوں میں کمی اور دیگر مسائل کے حوالے سے میڈیا باشعور طبقات سیاسی جماعتوں بلوچستان اسمبلی کی خاموشی سوالیہ نشان ہے تمام طبقات سے اپیل کرتے ہے بھرپور آواز بلند کرے۔