ہائے! سیندک پروجیکٹ ۔ الیاس بلوچ

260

ہائے! سیندک پروجیکٹ

تحریر۔ الیاس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کا ہر آزاد فرد اپنے مادر وطن کے کوہساروں کا گیت خوشی اور شادمانی کے ساتھ گاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم اپنے مادر وطن بلوچستان کے کوہساروں میں چھپے خزانوں کو رنج اور غم کے گیتوں سے یاد کرتے ہیں۔ بلوچستان میں چھپے خزانے بلوچ پُسّگ تو دور کی بات یہاں کام کرنے والے صرف بلوچ مزدوروں کو بھی کوئی خوشی نہیں دے سکا۔ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی معاشی حالت کو مقامی بلوچ آفیسرز ابتر کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور بلوچ عوام کے نام پر ملنے والے فنڈز کو اپنے ذات پر بے دریغ خرچ کر رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں میں نے سیندک پروجیکٹ کے کچھ مزدوروں سے انکے مسائل جاننے کی کوشش کی جن میں سے پڑھے لکھے ملازمین نے صورتحال کچھ اس طرح بیان کی کہ چینی کمپنی نے اپنی ساکھ اور شہرت کو بچانے کے لیئے تمام اختیارات مقامی بلوچ آفیسران کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ جن میں سے بیشتر آفیسروں کا تعلق ضلع چاغی سے ہے۔ ان ہی میں سر فہرست خالد گل ہے، جو نسلا پٹھان اور پشاور سے چاغی میں آباد ہوا شخص ہے۔ خالد گل 17 سالوں سے سیندک گولڈ پروجیکٹ کا منتظم عمومی آفیسر ہے۔ جسکا ایک دستخط چینی منیجمنٹ کے لیئے ” خط قبولیت ” کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ خالد گل M.D کے زیر سایہ کام کرتی ہے۔ ایم ڈی کے زیر سائے کام کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے اوپر ” سایہ یزداں” خدائی سایہ بھی ہے۔ اسکے پاس نہ اعلیٰ ڈگری ہے اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم، بلوچستان کے کوھساروں میں چھپے خزانوں پر اللہ نے اسکو مسلط کیا ہے۔ در حقیقت اگر موصوف کی حقیقت بلوچ عوام اور بلوچ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو ہر بلوچ اسکو نفرت کی نگاہ سے ضرور دیکھے گا، کیونکہ تعصب کے نام پر انہوں نے بلوچ کو بلوچ سے کافی دور کرنے کی کوشش کی ہے، کبھی ڈسٹرکٹ کے نام پر، کبھی آسامیوں پر دوسرے ڈسٹرکٹ سے آنے والے بلوچوں پر۔ ہاں ایک بات ضرور کہ وہ دیگر صوبوں سے آنے والے والے افراد کو ویلکم اور برداشت ضرور کرتا ہے، اسی وجہ سے مزدور اپنے حقوق کے بجائے ایک دوسرے بلوچ کو کوس رہے ہیں۔

کچھ اور مزدوروں کا کہنا تھا کہ مقامی بلوچ آفیسرز چینی کمپنی کے ” تجارتی مارکہ ” ہیں۔ جنہیں ملازم MRDL کا مارکہ سمجھتے ہیں۔ یہ چینی کمپنی کی پلاننگ بھی ہے، جسطرح دیگر کمپنیاں پہلے اپنی چیزیں ڈیلروں کو دیتے ہیں، ڈیلر منافع حاصل کرنے کے بعد ھول سیلروں کو دیتے ہیں۔ اسی طرح چائنیز کمپنی مقامی آفیسران کو ھول سیلر کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مزدوروں کے تمام مراعات انہی ھول سیلرز کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ھر دو سال بعد نئی لگژری گاڑی خرید کر ان آفیسرز کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کا منہ بند ہو جائے۔

ایسی حالات میں میڈیا اور صحافی برادران کا فرض بنتا ہے کہ وہ یہاں آکر ہر ملازم کا الگ الگ رائے لیں، تاکہ دنیا پر سب کچھ واضح ہوجائے، مگر بدبختی سے یہاں نہ کوئی عوامی لیڈر آتا ہے اور نہ ہی کوئی نمائندہ اگر آئے بھی تو ملازمین سے ملنے کے بجائے بنگلوں یا ریسٹ ہاوس میں دو دن آرام و آسائش کر کے چلے جاتے ہیں۔ اور جاتے وقت انکا ایسا استقبال کیا جاتا ہے جسطرح فوجی لیڈروں کو واپسی پر بینڈ اور باجے سے رخصت کیا جاتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے لوگ آئیں مسائل کو جاننے کی کوشش کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔