گوادر حملہ، جہد مسلسل کا عزم – شہیک بلوچ

350

گوادر حملہ، جہد مسلسل کا عزم

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوادر حملہ چین کی سامراجی پالیسیوں پر اب تک کا سب سے شدید اور کامیاب ترین حملہ رہا ہے۔ اس واقعے کی اہمیت اس حوالے سے بھی زیادہ ہے کہ استاد اسلم و ساتھیوں کی شہادت کے بعد ریاست نفسیاتی طور پر حاوی ہوگیا لیکن اس حملے نے ثابت کردیا کہ مسلسل مزاحمتی فکر کسی بھی خلاء کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ یہ استاد کی ان تعلیمات کا عرق بھی ہے کہ تحریک جب اداروں کی بنیاد پر ہو تب وہ سنبھل جاتی ہے اور یوں آج بلوچ جہدکار بڑے سے بڑے نقصان کے نتیجے میں بھی اپنے جدوجہد کو بغیر کسی مایوسی کے آگے بڑھانے کے فن سے آشنا ہوئے ہیں۔

اس حملے کے حوالے سے بی ایل اے کا بیان قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے جہاں ریاست کو سنگین نتائج سمیت بلوچ قوم کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا گیا۔ بلوچ مسلح تنظیموں کے اشتراک عمل سے یہ حملہ کامیاب ترین حملہ رہا جو اتحاد کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔

اس حملہ کے لیئے ریاست تیار نہیں تھا اور یہی اس حملے کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ یہی گوریلا حکمت عملی کی کامیابی ہے کہ ایک شہری علاقے میں اپنے ہدف تک پہنچ کر اسے حاصل کرنا اور پھر دس گھنٹے تک علاقے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے، اگر بلوچ جہدکار اپنی حکمت عملیوں کو اسی طرح کارگر بناتے رہے تب ریاستی قوتیں شدید نفسیاتی بحران کا شکار ہونگی اور بلوچ تحریک ان پر حاوی ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں بھی کوئی ایسا اقدام نہ اٹھے جس سے ریاست کو فائدہ ہو۔

تحریک کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تمام مسلح تنظیموں کو بہترین کوارڈینیشن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور اس جنگ کو جتنا زیادہ پھیلایا جاسکتا ہے اتنا ہی پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاست پھیلائے ہوئے جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اچانک اور شدید حملہ ہی کامیاب جنگ کی علامت ہے اور ایسا خاص کر اس وقت کرنا جب دشمن غافل ہو۔

سب سے بڑھ کر بلوچ جہدکاروں نے ایک نیا تاثر دیا کہ بلوچ تحریک اب شخصیتوں کے سحر سے نکل کر نظریئے کے ماتحت جاری ہے اور اب بلوچ تحریک ریاست پر حاوی ہوسکتا ہے۔ اب ریاست مزید نئے حربے استعمال کریگا لیکن اس کے لیے بلوچ جہدکاروں کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ خصوصاً سرکردہ رہنماؤں کی حفاظت کو لازمی بنانا ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔