چین میں بلوچ طلباء سے بی ایل اے کے بارے میں تفتیش

1093

گوادر حملے کے بعد چینی حکام کا چینی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے 16 بلوچ طباء سے پوچھ گچھ

دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا مانٹیرنگ ٹیم کے مطابق گذشتہ دن مائیکرو بلاگنگ کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک بلوچ صحافی “کِیا بلوچ” نے دعویٰ کیا ہے کہ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے قیام پذیر کچھ بلوچ طلباء نے ان سے رابطہ کرکے یہ انکشاف کیا ہے کہ گوادر حملے کے بعد چینی حکام نے بلوچ طلباء سے بلوچ لبریشن آرمی کے بارے میں تفتیش شروع کی ہے۔ تاہم ان طلباء کے حفاظت کے پیش نظر کِیا بلوچ نے ان طلباء اور انکے جامعات کا نام ظاہر نہیں کیا۔

کِیا بلوچ کے مطابق ” 16 بلوچ طلباء سے چینی سیکورٹی حکام نے رابطہ کرکے بی ایل اے کے بارے میں تفتیش کی۔ ان سے بی ایل اے کی موجودگی، انکی کاروائیوں اورتنظیم کے بارے میں عوامی رائے پوچھا۔”

بلوچ صحافی نے مزید کہا کہ ” طلباء پولیس کے اس رویئے سے حیران و پریشان رہ گئے، تاہم بعد ازاں حکام نے ان طلباء کو ایک عشائیے پر مدعو کیا، جہاں انہوں نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی یقین دہانی کرائی۔”

کِیا بلوچ کے مطابق ان طلباء میں سے ایک نے کہا کہ “چینی تفتیش کار بنیادی طور پر یہ جاننا چاہتے تھے کہ بی ایل اے کے بارے میں بلوچوں کے جذبات کیا ہیں، بی ایل اے کی قوت کتنی ہے اور کیا یہ کوئی بیرون ملک فنڈگ حاصل کررہا ہے۔ انہوں تفتیش کیلئے انہیں ایک سوالنامہ بھی دیا جس میں مزید سوالات تھے جیسے کہ بلوچستان کے مسئلے کا ممکنہ حل کیا ہے اور وہ کون سے علاقے ہیں جہاں بی ایل اے متحرک ہے۔”

کیا بلوچ نے مزید کہا کہ ” بعد ازاں تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ وہ محض چینی کاروباری شخصیات ہیں، جو بلوچ علاقوں میں سرمایہ کاری کا سوچ رہے ہیں، لیکن انکے سرمایہ کاری کے منصوبوں کو وہاں سیکورٹی خدشات ہیں۔”

یاد رہے بلوچستان میں گذشتہ ایک سال سے چینی منصوبوں اور مفادات پر حملوں میں بہت تیزی آئی ہے، گذشتہ سال اگست میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں چینی انجنیئروں کے ایک بس پر خودکش حملہ کیا گیا جبکہ پچھلے سال نومبر کے مہینے میں کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر تین مسلح افراد نے حملہ کرکے قبضے کی کوشش کی اور اسی ماہ 11 مئی کو چار حملہ آور گوادر میں واقع فائیو اسٹار ہوٹل جہاں چینی سرمایہ کار اور حکام رہائش اختیار کرتے ہیں پر حملہ کرکے 26 گھنٹوں تک قبضہ جمائے رکھا، ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی قبول کرچکا ہے۔ اس بابت بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔