وطن کا درد اور بالاد کا درد، کفایت کرار – غنی بلوچ

763

وطن کا درد اور بالاد کا درد، کفایت کرار

غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان اس لیئے خوش قسمت ہے کیونکہ پسماندگی،غربت و افلاس اور جنگ زدہ علاقے کے باوجود ہمیشہ اس کے لوگ کتاب اور پڑھنے کے قریب رہے، ہمیشہ وہ کتاب کیلئے پیاسے رہے، لیکن سنہ دو ہزار کے بعد یہ رجحان نوجوانوں میں زیادہ منتقل ہوگیا حتیٰ کہ سیاست میں بھی نوجوان بولتے رہے اور پڑھتے رہے۔

بلوچستان کا نوجوان بہت کچھ دیکھتا ہے، سنتاہے، محسوس کرتا ہے اور پھر حالات کے بہاؤ میں کھو کر سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ وہ مسخ شدہ لاشوں کو دیکھتا ہے، لوگوں کو لاپتہ ہوتے دیکھتا ہے، پھر ماؤں، بہنوں کے احتجاجی مظاہرے میں آہوں اور سسکیوں کی آواز بھی سنتا ہے۔ کرپشن، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، ساحل و وسائل کا رونا پھر یہی ساحل و وسائل اپنوں کے ہاتھوں سے نیلام ہونا۔ روز ہی بہت کچھ اس کے دل میں آتا اور نکل جاتا ہے۔ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیئے؟ وہ ہمیشہ اسی ہاں اور نہیں کے بیچ اٹکا رہتا ہے۔

لیکن ان تمام چیزوں اور باتوں کے باوجود روز اول ہی سے بلوچستان میں شاعروں کی شاعری بلوچ، بلوچستان اور بلوچ سماج کے گرد گھومتی رہی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ظلم و زیادتیوں کو بیان کیا ہے، اسی طرح جب اٹھارہ سو کے زمانے میں جب سرداروں نے انگریزوں کی بھگی کھینچی تو سب سے پہلے ان سرداروں سے ایک شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعے بغاوت کیا۔

اسی طرح میر علی دوست کی بہادری اور شجاعت کی داستان بھی ہمیں قیصر خان فقیرزئی کی شاعری سے ملتا ہے۔ آج بھی اگر دیکھا جائے موجودہ حالت کو سب زیادہ شاعر اپنے شعروں کی زینت بناتے ہیں۔ جس طرح منظور بلوچ کہتے ہیں کہ “شاعری میں ہمیں بہت حد تک کام نظر آتا ہے اور اب بھی ہم دیکھیں جو ہمارا فوک شاعری ہے، اس کا حصہ داری آج بھی موجود ہے، اگر میں ’’نورا، نورا، حمزہ نا مارے‘‘ جانتا ہوں تو شاعری کی وجہ سے جانتا ہوں، کسی نثر نگار نے مجھے نہیں بتایا، اگر نوروز خان کو میں جانتا ہوں تو شاعری کے توسط سے جانتا ہوں، میر علی دوست کو جانتا ہوں تو شاعری کے توسط سے جانتا ہوں۔ وہ لوگ شاید جن کے پاس ڈگری نہیں ہیں یا جن کو ہم جاہل، ان پڑھ سمجھتے ہیں وہ تو اپنا کام کررہے ہیں، آج بھی پہاڑوں، میدانوں میں ایسے بہت سے شاعر ملینگے، جو اپنے ہیروز کو، ان کے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو استحصالی گروہوں کا ساتھ دیتے ہیں، جو سماج کے خلاف جاتے ہیں، جو ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں ان کو بھی یہ بے نقاب کرتے ہیں۔ ہماری فوک شاعری یا جو بھی نام آپ اس کو دیں، عوامی شاعری یا آج جو نوجوان شاعری کررہے ہیں وہ 2000 سے پہلے کی شاعری سے بہت مختلف ہے۔ پہلے ہمارے یہاں جو شاعری ہوتی تھی وہ عامیانہ قسم کی رومانویت کی شاعری ہوتی تھی لیکن آج کی براہوئی شاعری کو میں دیکھتا ہوں وہ بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے، اس کے موضوعات تبدیل ہوچکے ہیں۔”

سنہ دو ہزار کے بعد بلوچستان بدل گیا، شاعری سے لیکر کالم نگاری ،افسانہ نگاری تک بھی بدل گئی اور ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، جوآج بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ان ادوار میں ایک نام کفایت کرار کا بھی آتا ہے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ اس نے شاعری کو ایک نیا رنگ دیا تو میرے خیال میں غلط نہیں ہوگا۔ کفایت کرار کے شاعری کو پڑھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاعری کے اندر کفایت کرار کا ویژن، سوچ کیا تھا، اس کا اپروچ کیا تھا۔ اس کی پرمغز شاعری میں ہر جگہ وطن سے محبت اور وطن کے بارے میں شاعری نظر آتی ہے۔ جیسا کہ وہ اپنے اس شعر بلوچ قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا درس دے رہا ہے۔

“عمر ءُ پھلین حمید جان ءِ توار انت اتحاد
دژمن ءَ پہ ڈنگ جنوکین سیاہ مار انت اتحاد
گوش بدار کمین ادا! تو سار کن ورنا بلوچ
تئی بدین حالانی مرچی گوانک ءُ جار انت اتحاد
تو بزان جندا وتی دژمن وتی دوست آ وتی
کہ ترا ہر گام گام آ نون پکار انت اتحاد”

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کفایت کرار ایک ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے سیاسی استاد بھی تھے۔ اسی لیے اس کی شاعری میں سیاست کا عنصر زیادہ غالب رہا ہے۔ جس طرح وہ اپنے ایک اور شعر میں اس طرح کہتے ہیں۔

“کاروان رادگ انت حق ءِ راہ ءِسرا
جذبہ ء جوش گون
رُژن ءَ گون ، ہوش ءَ گون
تو بدار ءِ ستر
راھدگیں کاروان، گژنگیں سارباں
گوستگ وس آ چہ تئی
نوں ترا گار کنت
گوں تو دارگ نہ بیت
گوں تو دارگ نہ بیت”

کفایت کرار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے سیاست اور شاعری کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس لیئے اس نے بلوچستان نیشنل پارٹی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راسکوہ ادبی دیوان سمیت کئی اور اداروں کی بنیاد رکھا۔

کفایت کرار کے شخصیت کا احاطہ غمخوار حیات اپنے ان لفظوں میں کرتا ہے کہ “کرار کا درد، اس سرزمین کا درد، اس دھرتی کے بے وس،غریب لاچار بزغر اور شوان کا درد، مظلوم اور محکوم اقوام کی لاچاری، پسماندگی کا درد، راج قوم کی بے مہری کا درد، غیروں کا درد، ایٹمی دھماکے سے جلنے والا راسکوہ کا درد، ایک دوسرے کے ساتھ جنگ جیڑہ خون ، فساد کا درد، بالاد کا درد، یہ تمام درد اور تکلیفیں اسکی شاعری اور اس کی زندگی کو تکلیف میں ڈالے ہوئے تھے۔ بلکہ اس درد اور تکلیف نے پوری زندگی اسے آرام کیلئے نہیں چھوڑا۔ اسی درد اور تکلیف نے اس کے دماغ کے رگوں میں پیوند ہو کر آخر کار کفایت کو ہم سے چھین لیا۔””


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔