زلمے خلیل زاد، طالبان کے ہتھیار ڈالنے کا خیال بھول جائیں، ترجمان

151

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی نمائندہ امن عمل زلمے خلیل زاد، طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرنا چھوڑدیں اور امریکا سے کہیں کہ وہ طاقت کا استعمال چھوڑے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’ مذاکرات کے افتتاحی سیشن میں، میں نے طالبان کو آگاہ کیا کہ افغان شہری جو ان کے بھائی اور بہنیں ہیں، وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ تھا کہ ’ یہ ہتھیار چھوڑنے، انتہا پسندی کو روکنے اور امن کے قیام کا وقت ہے‘۔

جس پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زلمے خلیل زاد کے بیان کے رد عمل میں مختلف ٹوئٹ کیے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ زلمے خلیل زاد ہمارے ہتھیار ڈالنے کے تصور کو بھول جائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ ایسے خوابوں کے بجائے، انہیں امریکا کی جانب سے طاقت کا استعمال ختم کرنے کا تصور اور کابل اتنظامیہ کے مالی و جانی نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا کو مختلف نتائج کی توقع کرتے ہوئے ناکام حکمت عملی کو دہرانا روکنا چاہیے۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ ’ یہ بہتر ہوگا کہ امریکی نمائندہ برائے افغان امن عمل کو صاف گوئی سے بولنے کی کوشش کرنی چاہیے اور موجودہ حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے‘۔

اس حوالے سے گزشتہ روز ایک علیحدہ ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ’ امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم 4 مسائل کے حل پر متفق ہوں، فوجیوں کے انخلا، انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی، طالبان اور حکومت سمیت افغانستان کے مابین مذاکرات اور بات چیت اور مکمل جنگ بندی کی طرف بڑھتے ہوئے تشدد میں کمی ‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ جب تک ہم ان 4 مسائل پر متفق نہیں ہوتے کچھ بھی حتمی نہیں ہوگا‘۔

خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات کا چھٹا مرحلہ جاری ہے جس میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق کسی معاہدے پر پہنچنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز افغانستان میں طالبان سے امن معاہدے کے لیے ہزاروں افغان رہنماؤں نے گرینڈ اسمبلی (لویہ جرگہ) میں پہلے قدم کے طور پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

بعد ازاں آج لویہ جرگہ نے اعلامیے میں مطالبہ کیا تھا کہ ’ اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت اور تحریک طالبان کو فوری طور اور مستقل جلد بندی کا اعلان اور اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے‘۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کہ جنگ بندی کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے آغاز سے قبل شروع ہونا چاہیے۔

گرینڈ اسمبلی کے مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’وہ جنگ بندی کے اس جائز مطالبے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں ‘ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ ’ یہ یک طرفہ نہیں ہوسکتا‘۔

اشرف غنی نے ایک تقریر میں کہا کہ ’ اگر طالبان جنگ بندی کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں تو ہم تکنیکی تفصیلات پر بات چیت کرسکتے ہیں‘۔

افغانستان میں اس وقت امریکا کی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار پر مشتمل ہے۔

مذاکرات کے 5 پانچ مراحل کے بعد زلمے خلیل زاد نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور طالبان کی جانب سے انتہا پسندوں کو حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال روکنے کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔