ایک نایاب تُحفہ – کوہ دل بلوچ

461

ایک نایاب تُحفہ

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قریب قریب 2011 یا 2012 کا دور تھا، بلوچستان میں سیاسی سیلابوں نے ہر شہر، ہر کوچے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، ہر طرف حق و حقوق، سیاسی آزادی، فطری آزادی، خودارادیت اور مکمل قومی آزادی کا ایک باشعور صدا بُلند ہوچکا تھا، یہ آواز چاہے بلوچستان کے کسی کونے سے اُٹھ جاتا، اُس کی لہریں چاروں طرف پھیل کر ہم جیسے خوابِ غفلت میں محو سوئے ہوؤں کو جگا دیتا تھا.

یہ انقلاب صدیوں سے ایسے ہی وقفے وقفے سے چلتا آیا تھا لیکن اس بار کافی شدت پکڑ چکا تھا، رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اسی مسلسل جدوجہد نے ہر بلوچ نوجوان، بزرگ اور مرد و زن کو اپنا حصہ بنا لیا تھا، گذرے ہوئے بلوچ تاریخ کا جائزہ لیا گیا، بلوچ سرزمین کے جغرافیہ حدود اور قدر و قیمت کو سمجھنے کا ایک مثبت سوچ ابھرنے لگا، جو تاحال روز روشن کی طرح عیاں ہے، اسی روشنی کیلئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ان ایثارِ وطن کے جھروکوں میں بے شمار کرداروں کا ذکر شامل ہے، جس میں بی ایس او (آزاد) کے مخلص اور سیاسی شعور سے لیس نوجوان ذاکر مجید، ڈاکٹر دین محمد، زاہد بلوچ اور شبیر بلوچ جیسے ہزاروں اور بھی کارکن ہیں، جو ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں اور ایسے ہی ہزاروں جانثار تھے، جو ریاستی جبر اور زوراکی کے سامنے سینہ تان کر کوہِ آماچ کی طرح کھڑے رہے اور جامِ شہادت نوش کرکے ایک تاریخ کی سنگِ بنیاد ڈال دی اور اس تاریخ کے عمارت کو آج بھی بلوچ نوجوان ایک پُختہ عزم کے ساتھ بہت ہی خوبصورتی سے تعمیر کر رہے ہیں، جو آنے والے اور موجودہ جنریشن کیلئے ایک مضبوط پناہ گاہ اور سنگر ثابت ہوگا. اسی جدوجہد سے منسلک ایسے دو ہستیوں کا ذکر کروں گا، جن کا میں اور میرا قلم دونوں سانسوں کی آخری لڑی تک مقروض رہیں گے۔

وہ زمانہ، وہ گزرتا ہوا وقت، ہمیں بھی اُس حقیقت نگار کی طرح ستاتا ہے جو ہر تحریری خیالات میں اور ہر ماضی کے داستان میں اپنے بچپن اور ادھیڑ دنیا کا ذکر کیئے بغیر اپنے تحریری آغاز و اختتام کو ادھورا سمجھتا ہے، جب تک کہ وہ اپنا گذرا ہوا زمانہ ان میں شمار نہ کر دے۔ ایسے ہی ہمارا ایک زمانہ تھا جس کی روز و شب کو آج تحریروں میں شامل کرنے کا اعزاز اُن کو جاتا ہے جو میرے تحریر کے سُنہرے عنوان ہیں۔

وہ ایک ایسا زمانہ تھا، ہم اپنے علاقے کے باقی ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اسکول میں پڑھتے تھے. یہ میرے ہائی اسکول میں پڑھنے کا دور تھا، ایک دن میں اسکول سے چھٹی کرکے سیدھا اپنے دوکان پہنچ گیا، جہاں والد محترم موجود نہیں تھا، چھوٹے بھائی کے موجودگی میں اُس نے میرے لئے دوکان پر بیٹھنے کا پیغام چھوڑ کر کچھ مہمانوں کے ساتھ کہیں نکل چکا تھا.

دیکھتا کیا ہوں کہ اچانک میرل نثار نظر آنے لگا، اُس کے ساتھ مہربان سنگت دلوش بھی تھا، میں سنگت دلوش کو تو نہیں جانتا تھا لیکن میرل نثار سے بہت بار ملاقات ہوچکا تھا، ایک دوسرے سے کافی شناسائی بھی تھا، قسمت کی مہربانیوں سے میرل نثار کے ساتھ اتنا وقت گذار لیا تھا کہ اُس نے اسی دورانیئے میں اپنی تعلیمات سے ہمیں آگاہ کیا، تعلیم پر توجہ اور دھیان دینے کی بار بار تلقین کرتا تھا اور ایک عظیم و مہربان سنگت کی طرح مشورہ دیتا تھا کہ آپ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کرنا چاہیئے۔ وہ بلوچی زبان میں بات کرتا تھا جو بات میرے سمجھ میں نہیں آتا تھا تو وہ ایک ماہر اُستاد کی طرح میرے چہرے کے تاثرات سے سمجھ جاتا کہ مجھے کونسی بات سمجھ نہیں آیا، وہ پھر اُسی بات کو اُردو زبان میں مجھے سمجھا دیتا تھا، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرل نثار کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے حتیٰ کہ کھانا کھانے کا بھی موقع ملا، اُس کی پُرکشش صحبت نصیب ہوا اور آج میں جس مقام پر کھڑا ہوں تو وجہ صرف اور صرف میرل نثار کی تعلیمات اور دلوش کا دیا ہوا تحفہ ہے، میں آج کم از کم ان کے جدوجہد کا ایک ادنیٰ سا حصہ دار ہوں.

جب پہلی دفعہ دلوش کو میرل نثار کے ساتھ دیکھا تو اُس کے لب و لہجے اور اُس کے مخلصانہ باتوں کو سُن کر اندازہ ہوا کہ سچائی کا پیکر تھا اور مخلصی کا ایک واضح ثبوت، اُس کے اس درویش صفت انداز میں ہزاروں راز چھپے ہوئے تھے، سنگت دلوش کُرسی پر تشریف رکھ کر باتوں میں مگن ہوئے لیکن میرل نثار کچھ جلدی میں تھا، بہت اصرار کے باوجود بھی وہ نہیں بیٹھا۔ بس یہی بار بار دہرا رہا تھا کہ جانا ہے جلدی میں ہیں لیکن ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ ہمارے ساتھ وقت گذارا دونوں نے۔ چائے بھی پی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے دلوش مجھے برسوں سے جانتا ہے، ہر بار اُس کے ہر بات پر رہنمائی محسوس ہوتا تھا اور بی ایس او آزاد کے اُس دور کے ایکٹیوٹیز کے بارے میں بھی کافی بات ہوئی۔ دونوں نے آخر میں جاتے جاتے مجھے ایک قلم ہاتھ میں تھما دیا جس پر بی ایس او (آزاد) کا نشان اور انگریزی الفاظوں میں بی ایس او آزاد لسبیلہ یونیورسٹی یونٹ لکھا تھا۔

وہ دونوں مہربان سنگت چلے گئے، مجھ سے میرل نثار کا وہ آخری مُلاقات تھا اور امتیاز جان کا پہلا اور آخری مُلاقات، اُس کے بعد ان عظیم ہستیوں کا مُلاقات مجھے نصیب نہیں ہوا۔

اُس وقت دونوں میرے ہاتھوں میں ایک قلم چھوڑ کر چلے گئے، میرے گمان میں نہیں تھا کہ یہ قلم میرے لئے ایک مکمل پیغام ہے، وہ دور میرے نا سمجھی کا دور تھا شاید اس قلم کو کچھ دنوں کے بعد میں نے نظر انداز کردیا اور اس اندھے اور بہرے سماج میں گُھل مل گیا، لیکن ایک ناسمجھ انقلابی میرے اندر ہر وقت موجود تھا، جو شہید بالاچ مری اور شہید اکبر بگٹی کی شہادت اور اُن کی جدوجہد کی شدت سے میرے شعوری حصے میں جنم لے چکا تھا، شاید میرل نثار کو اس کا ہی جھلک دکھنے لگا تھا اور پھر دلوش نے یہ قلم مجھے تحفے میں دے کر مجھے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ تم ایک زمہ دار ہو آپ کو اپنے زمہ داری زندگی کے کسی موڑ پر نبھانا ہوگا، برسوں گذر گئے میرل نثار پھر کبھی نہیں آیا، ہر بار اُس کے عزیزوں سے پوچھا کرتا تھا لیکن وہ یہی کہہ کر مجھے مسلسل انتظار میں جھونک دیتے تھے کہ وہ آج کل یونیورسٹی میں بھی نہیں ہے، شاید ایران چلا گیا ہے، اور اُس نڈر کردار پر گفتگو کرتے تھے کہ اُسے ایک دفعہ خاران میں فوج نے ایک دوست کے ساتھ اُٹھا لیا تھا، پھر اہلِ علاقہ نے احتجاج کرکے اُسے فوج سے بچا لیا، اُس کے بعد خاندان نے اُسے لسبیلہ یونیورسٹی بھیج دیا لیکن وہ وہاں بھی نہیں رکا آج کل شاید ایران جاچکا ہے.

وقت گذرتا گیا لیکن نہ پھر میرل آیا نہ دلوش، اُن کا انتظار بہت شدت سے تھا، اب مجھ میں جو ننھا سا انقلاب جو میرل نثار اور دلوش کو نظر آیا تھا، وہ کافی سنجیدہ ہو چکا تھا، 2014 میں شہید امیر الملک کی شہادت نے میرے اندر بھی وہی کیفیت بنا دیا تھا جو شور پارود کے پہاڑوں پر چھا چکا تھا، ایک فلسفی نے اپنے فلسفے کو عملی شکل دے کر امر ہوچکا تھا، اُس کے لہو کا ہر قطرہ مجھ جیسے نومولود انقلاب کے وارث کو توانائی بخشتا اور ہمارا فکر و نظریہ مکمل اپنی جدوجہد کی جانب راغب کرنے پر مجبور کردیا۔

ملکی اخبار اور سیاسی ذرائع سے بلوچ جہدکاروں کے مسلسل جدوجہد کے معلومات ہمیں حاصل ہوتے تھے، شاعروں کے انقلابی شعروں نے مکمل آزادی کا تصور لفظوں میں پیوند کر دیا تھا، سوشل میڈیا کا دور آیا، نیٹورک کے سہولیات کی تاخیر کی وجے سے ان سے فائدہ اُٹھانے کا موقع برسوں بعد ہمیں مہیا ہوا، کیونکہ آج بھی ریاستی ہتھکنڈے بلوچستان کو جدت کی دنیا سے دور رکھنے کی ناکام کوششوں میں مگن نظر آتے ہیں. آپ کو بلوچستان کے کئی چھوٹے اور بڑے علاقوں میں آج بھی انٹرنیٹ کی سہولیات نظر نہیں آئیں گی، اگر آپ اس متعلق بلوچستان کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے. انہی سماج دشمن عناصر کے لاکھ رکاوٹوں کے باوجود بلوچ سماج کو ترقی یافتہ دنیا سے دور نہیں رکھا جا سکا اور اسی طرح اس قومی جدوجہد کی جانب کسی حد تک بلوچ نوجوانوں کو رسائی حاصل ہوئی، چھوٹے موٹے آرٹیکل اخباروں کو آن لائن بھیجتے رہے اور کتابوں میں بلوچستان کے پرچم رنگا دینے لگے، کھل کر اپنے وطن کے گیت سننے لگے، ایسا بھی وقت تھا کہ بلوچستان میں وطن آجو کے نام پر پروگرام ہوا کرتا تھا، شعر و شاعری اور سیاسی حوالے سےتحریر و تقریر کا ماحول بنا لیا جاتا تھا لیکن یہ وقت بس اتنا تھا کہ ہم بس انقلابی گانے سن سکتے تھے۔

ایک ایسا وقت آیا کہ ہمارے چھوٹے موٹے ایکٹیوٹیز پر اپنوں کے اور غیروں کی نظر پڑنے لگی، تو ہم پر ایک پابندی سی عائد ہوئی اور ہمیں لکھنے سے روک دیا گیا، پڑھنے پر ایک مخفی نظر ہر وقت رکھا گیا، اور دباؤ بڑھنے لگے، کھل کر اظہار رائے پر مکمل پابندی لگ گئی، حالانکہ قومی دشمن ہمارے اس چھوٹے سے (جو نہ ہونے کے برابر تھا) حکمت عملی سے کوسوں دور لاعلم تھا، لیکن یہ پابندیاں خاندان کی طرف سے ہم پر لگ گئے اور ہم قلم ہاتھ میں عبرت کے مجسمہ بن کر رہ گئے، کیونکہ ہم میں نہ بغاوت کا شعور تھا اور نہ ہمارے پاس دلائل سے بھرا جواز تھا، بس انہی روایتی پابندیوں کے دائرے میں محصور ہوکر رہ گئے۔

یہ شہید امتیاز کے شہادت کے اعلان کا دورانیہ تھا، مجھے یہ خبر ملی کی عظیم سنگت امتیاز عرف دلوش بولان میں دشمن کے ایک خونی آپریشن کے دوران تین ساتھیوں سمیت شہید ہو چکا ہے، ایک پل کیلئے مجھے ایسا لگا جیسے مجھ سے میری سب سے قیمتی چیز کھو گئی، اور یہی کیفیت مجھ پر تب بھی حاوی ہوا جب میرل نثار کی شہادت کی خبر نظروں سے گذری، ان دو عظیم سنگتوں نے میرے زندگی کو تبدیل کرنے میں اپنا فرض ادا کیا، یہی سمجھ کر میں ایک بلوچ ہوں اور آج میں خود کو اُن کی راہ پر کم از کم ایک ادنیٰ سا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں یہ میرل نثار کی تعلیمات کا اثر ہے اور سنگت دلوش کا دیا ہوا حوصلہ، شہید دلوش کے شہادت کے بعد میں نے سب سے پہلے اُس کے نام پر “زنگ زدہ قلم” کے عنوان سے ایک آرٹیکل قلم بند کیا اور اُس کے بعد مسلسل اُس کے دیئے گئے قلم کو کبھی رُکنے نہیں دیا اور آج بھی بی ایس او (آزاد) کا وہ قلم روانی سے جاری ہے، جو مجھے سنگت امتیاز نے ہاتھ میں تھما کر رخصت ہوا تھا۔

میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ایسے ہستیوں کا مجھے دیوان نصیب ہوا اور اُن کی تعلیمات نے مجھ پر اثر چھوڑا، شاید میرے زندگی میں شہید میرل نثار مجھ سے اگر نہیں ملتا، شاید میں آج کسی سرکاری ملازمت پر نوکری سرانجام دے رہا ہوتا اور کرپشن و بد عنوانی میرے بائیں ہاتھ کے لکیروں میں تقدیر کا فیصلہ کرتے نظر آتے کیونکہ یہ سچ ہے اس ریاست میں صدر سے لیکر چپڑاسی تک سب اس فرسودہ نظام کے حصہ دار ہیں.

مجھے یقین ہے سنگت دلوش اور سنگت میرل نثار یہ نایاب تحفہ ہر اُس بلوچ نوجوان تک پہنچا چکے ہوں گے، جس میں ذرا بھی قوم دوستی کی جھلک اُنہیں نظر آیا ہوگا، وہ تو نفسیات کے ماہر تھے، دور بیٹھے کسی شخص کو سمجھ جاتے کہ اس میں کتنی قومی بقاء کے خاطر لڑنے کی سکت ہے، بس اُسے کسی رہنما کی تلاش ہے، اور میں پُرامید ہوں جس کو بھی یہ تحفہ جس کسی سنگت کے ہاتھوں بطور تحفہ نصیب ہوا ہے وہ بھی اپنی زمہ داری نبھا رہا ہوگا.

“میں مطمئن ہوں، میرا ضمیر مطمئن ہے کہ مجھ تک جن ہستیوں نے قومی جدوجہد کا جو پیغام پہنچایا، میں اُس پر پورا اُترنے کی کوشش میں ہوں ایک دن میرل نثار اور دلوش کے سنگتی کا حق ضرور ادا ہوگا”


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔