اختر مینگل حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرئے – جام کمال

670

وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو مشورہ دیا کہ وہ حکومتی یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں کیونکہ حکومت کاحصہ ہوکر تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے انہوں نے جو 6نکات پیش کئے ہیں اس میں زیادہ تر نکات جائز ہیں جس پر ہماری حکومت بھی گامزن ہے جہاں تک لاپتہ افراد کی بات ہے تو اس معاملے پر بلوچستان حکومت نے اپنا بھی کردار ادا کیا۔

سردار اختر جان مینگل حکومت سے علیحدہ ہوکر کھل کر حکومت پر تنقید کریں یا تو پھر حکومت میں شامل ہوکر ہی بلوچستان کے مسائل حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کے لوگ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں بلوچستان کی ساتھ کسی اور نہیں اپنے ہی لوگوں نے نا انصافیاں کی ہیں۔

یہاں کبھی وزیراعلیٰ سندھ،پنجاب یا کسی اور جگہ سے نہیں آیا بلکہ بلوچستان کے ہی لوگوں نے یہاں حکمرانی کی ہے سی پیک منصوبے میں ماضی کی حکومت نے اپنا حق کبھی مانگا ہی نہیں پی ایس ڈی پی میں ایسی اسکیمات شامل کی گئی ہیں جن کانہ سرنہ پاؤں پی ایس ڈی پی میں ایسی بھی اسکیمات شامل کی گئی ہیں جو صرف اور صرف کاغذوں تک محدود ہیں ہمیں بلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے اب بس کرنا ہوگی اور خوشحالی کی طرف جانا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا وزیر اعلی بلوچستان نے کہاکہ کوئی بھی شخص وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوجائے تو عوام کو ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ عوام کے مسائل حل ہونگے تاہم بلوچستان میں ماضی کی حکومتوں کا روایہ انتہائی نامناسب رہا ہے محکموں کے درمیان رابطوں کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہاں احساس محرومی میں اضافہ ہوا جب میں وزیراعلیٰ منتخب ہوا تو تہیہ کیا کہ بلوچستان کے ساتھ مزید ناانصافیاں برادشت نہیں کی جائیں گی۔

بلوچستان کا 350ارب روپے کا بجٹ ہے جس کا سب زیادہ حصہ تنخواہوں اور دیگر اخراجات میں چلا جاتاہے صر ف 15فیصد ترقیاتی عمل کے لئے بچ جاتا ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے اس صوبے میں لوگوں کو نوکریاں اورپرموشن پر زیادہ توجہ دی گئی 40سے 45ارب روپے کا استعمال صحیح نہیں ہوا جس کا زیادہ حصہ کرپشن کی نذر ہوا مس منیجمنٹ یاناسمجھی میں پیسہ ضائع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب سی ایم آئی ٹی کے ممبرز نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 8سوسے زائد ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا تو پتا لگا کہ 60سے 65فیصد اسکیمات پر نوے فیصد کام صر ف کاغذوں میں موجود ہے جبکہ گراونڈ پر صرف دس فیصد کام ہوا ہے۔

انہوں نے کہا جتنے بھی وزرائے اعلیٰ بلوچستان صوبے میں گزر ے ہیں ان سب کا تعلق بلوچستان سے ہی ہے نہ کہ پنجاب یا سندھ سے جو بھی ہوا بلوچستان میں ہوا اچھا یا برا یہاں کے لوگوں نے ہی کیا آج بھی صوبے میں کئی ایسے سکول واسپتال ہیں جہاں عملہ نہیں جس کی ذمے داری ہماری اوپر آتی ہے۔

ہماری حکومت کی ترجیحات میں تعلیم صحت اور صاف پانی عوام کو فراہم کرنا شامل ہے جس کا وہ حقدار ہیں انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ سے قانون پاس کیا ہے کہ بلوچستان کی زمین ملکیت پر نہیں بلکہ صرف لیز پر دی جائے گی اور زمین کی ملکیت پر صرف حق بلوچستان کے عوام کا ہے صرف نعروں سے ساحل اور وسائل نہیں ملتے بلکہ عملی طور پرقانون سازی ودیگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میں 4ہزار 8سو اسکیمات ہیں کابینہ نے 25سو اسکیمات نکال دیں کیونکہ ان کی اسکیمات کا نہ سر تھا نہ پاؤں موجود ہ حکومت ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹریشن اور لوکل گورنمنٹ کو اختیارات دے کر فنڈز کا اجراکررہی ہے کہ نچلی سطح پر عوام کے جو بنیادی مسائل وہ فوری طور پر حل ہوسکیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ بلوچستا ن جام کمال نے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو مشورہ دیا کہ وہ یاحکومتی یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں کیونکہ حکومت کاحصہ ہوکر تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔

انہوں نے جو 6نکات پیش کئے ہیں اس میں زیادہ تر نکات جائز ہیں جس پر ہماری حکومت بھی گامزن ہے جہاں تک لاپتہ افراد کی بات ہے تو اس معاملے پر بلوچستان حکومت نے اپنا بھی کردار ادا کیا سردار اختر جان مینگل حکومت سے علیحدہ ہوکر کھل کر حکومت پر تنقید کریں یا تو پھر حکومت میں شامل ہوکر ہی بلوچستان کے مسائل حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کے لوگ ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سال سی پیک سی پیک کیاگیا مگر بدقسمتی سے بلوچستان کو اس منصوبے میں کچھ بھی نہیں ملا ہمیں صر ف گوادر پورٹ اور حبکو ل پاروپلانٹ ملا اس کے علاوہ بلوچستان کو کچھ بھی نہیں ملااس وقت کی حکومتوں کو چاہیے تھا کہ وفاق سے کھل کر بات کرتیں جو نہیں کی گئی اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان سے متعلق اسکیمات شامل کی جاتیں تو آج بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ تمام دوستوں کو ساتھ لیکر چلوں اور میری کابینہ میں شامل ارکان بھی یہی چاہتے ہیں کہ صوبے کی ترقی خوشحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے جس کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ اصلاحات لارہے ہیں۔