اجتماعی سزا کے تحت بلوچستان میں خواتین و بچوں کے اغوا میں تیزی آئی ہے – بی این ایم

149

کسی بھی جنگی صورت حال میں خواتین اور بچوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے لیکن پاکستانی ریاست اور افواج کے لئے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات اپنی وقعت کھوچکے ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا کے تحت بلوچستان کے طول و عرض میں خواتین اور بچوں کے اغوا میں نہایت تیزی آئی ہے۔ نصیر آباد کے علاقے ربی سے نو خواتین اور بچوں کو پاکستانی فوج نے اغوا کیا۔ نصیر آباد میں شے حق بگٹی کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں موجود چار خواتین اور پانچ بچوں کو اغوا کے بعد فوج نے نصیر آباد کیمپ منتقل کردیا ہے۔ ان میں دھنڈو زوجہ کریم بگٹی، شوزان زوجہ شے حق بگٹی، بجاری زوجہ شے حق، پاتی بنت کریم بگٹی، آٹھ سالہ جمیل ولد کریم بگٹی، چھ سالہ بٹے خان ولد شے حق، زرگل زوجہ شے حق، تین سالہ آمنہ بنت شے حق اور نور بانک بنت شے حق شامل ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ان علاقوں سمیت ڈیرہ بگٹی، کوہلو، مکران، مشکے، آواران، حب چوکی اور جھاؤ سمیت مختلف جگہوں سے سینکڑوں خواتین اور بچوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے اسی طرح اغوا کرکے خفیہ ٹارچر سیلوں میں رکھا ہے۔ گذشتہ سال جولائی میں مشکے سے اغوا کئے گئے اللہ بخش کی اہلیہ نورملک بچے اور بچیوں سمیت تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ نہایت قابل مذمت اعمال ہیں مگر پاکستان جیسی غیر فطری اور غیر مہذب ریاست سے یہی توقع کرنا چاہیئے۔ اس درندہ صفت عمل کا مقصد بلوچ جہد کاروں کو قومی آزادی کی جد و جہد سے زبردستی دستبردار کراکر بلوچستان پر قبضہ کو مضبوط اور دائمی رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے یہ مظالم بلوچستان پر جبری قبضہ کے بعد سے شروع ہو کر تاحال جاری ہیں اور ان میں ہر گزرتے دن شدت لائی گئی ہے۔ بلوچ نوجوانوں، بوڑھوں، پروفیسرز، شاعر، ادیب، دانشور، ڈاکٹر اور انجنیروں سمیت تمام طبقہ فکر کے لوگوں کو چن چن کر لاپتہ یا شہید کیا گیا۔ ”مارو اور پھینکو“ اور جعلی مقابلوں میں بلوچوں کو شہید کرنے کا تجربہ بھی آزمایا گیا۔ ان تمام مظالم اور تجربات کے بعد خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے کی پالیسی کا اضافہ کیا گیا لیکن بلوچ قوم جس شعوری وابستگی کے ساتھ پاکستان سے نجات حاصل کرنے کی تحریک میں شامل ہے اسے ختم کرنا یا دستبردار کرانا نا ممکن ہے۔

ترجمان نے کہا کہ کسی بھی جنگی صورت حال میں خواتین اور بچوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے لیکن پاکستانی ریاست اور افواج کے لئے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات اپنی وقعت کھوچکے ہیں اور وہ انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں میں مصروف ہیں۔ ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں، عالمی ذرائع ابلاغ کے اداروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتے ہوئے کہا پاکستان کے جنگی جرائم کا نوٹس لیا جائے تاکہ بلوچستان میں انسانی بحران پر قابو پانا ممکن بنایا جائے۔