گوریلا جنگ اور بلوچ قومی تحریک آزادی ۔ میرین بلوچ

715

“گوریلا جنگ اور بلوچ قومی تحریک آزادی”

تحریر۔ میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان لڑتا کیوں ہے؟ حقیقت میں کوئی نہیں مرنا چاہتا کیونکہ جنگ کوئی اچھی چیز ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ انسان خود کو زندہ رکھنے کی خاطر لڑتا ہے، کیونکہ ہر انسان چاہتا ہے کہ خوشحال زندگی گذارے، زندگی کا سب سے بڑا مقصد زندہ رہنا ہی ہے۔ جنگ سروں کی باختگی کا سودا ہے گھر بار، مال مویشی،رشتہ دار جائیداد عزیز واقارب سب کچھ چھوٹ جاتے ہیں لیکن ایک نئی زندگی کیلئے انسان اپنی سروں کو قربان کر دیتے ہیں۔ صرف اور صرف اپنی بقاء و سلامتی اور آزادی کی خاطر ایک نئے دن کا آغاز کرنے کیلئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔

غلامی ایک ایسی بیماری ہے، جس کا حل علاج ہے کیونکہ جب مریض بیمار ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر ان کا علاج کرتا ہے۔ غلامی کا علاج آزادی ہے، آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو ہر کوئی، جس میں انسان، پرندہ، کوئی بھی شئے ہو،وہ چاہتا ہے کہ میں آزاد ہو جاوں۔

قدیم زمانے کے انسان جنگ کیلئے اپنے جسمانی صلاحیتوں اور طاقت کے ذریعے دشمن کو شکست دیا کرتے تھے، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو مزید نقصان پہنچانا چاہتے تھے، تو اانسان کو اپنے جسمانی طاقت کے علاوہ مزید ذرائع کی ضرورت درپیش آئے تاکہ وہ ان کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے طاقت میں اضافہ اور دشمن کو مزید نقصان پہنچا سکیں۔ اسی مقصد کیلئے انسان نے لکڑی، پتھر، ہڈیوں سے اسلحہ بنانےکا آغاز کیا آہستہ آہستہ انسان کے اندر شعور، تعلیمات اور نئی سوچ پیدا ہوئی، جو دن بدن اسلحہ بنانے کے ہنر میں ترقی کا سبب بنی، آج انسان کے پاس کئی طرح کے انواع و اقسام کے اسلحہ موجود ہیں۔

ان اسلحوں کو دو اقسام میں بانٹ دیا گیا، یعنی ایک تو نیوکلیئر اسلحہ اور روایتی اسلحہ۔ اسی طرح جنگوں کو دو جگہ پر بانٹ دیا گیا، یعنی ایٹمی جنگ اور روایتی جنگ۔

ایٹمی جنگ وہ جنگ ہے، جب دوسرے ملک یعنی دشمن کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کیا جائے، ایٹمی جنگ کہلاتا ہے۔ امریکا نے 6اگست 1945کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9اگست 1945کو جاپان کے ہی شہر ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر تباہ کر دیئے، جسکی تبائی کسی نے بھی تاریخ میں نہیں دیکھا ہوگا۔

غیر ایٹمی یا روایتی جنگ وہ جنگ ہے جو روایتی اسلحہ استعمال کرکے لڑا جائے، تو غیر ایٹمی جنگ کہلاتا ہے۔ روایتی جنگ چار اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔ باقاعدہ جنگ، سرد جنگ، پروکسی جنگ، گوریلا جنگ۔

باقاعدہ جنگ، وہ جنگ ہے جس میں ایک ملک دوسرے کے خلاف اور بین الاقوام دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور جنگ میدان میں مورچہ بندی کرکے روایتی اسلحہ سے آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، یہ باقاعدہ جنگ کہلاتا ہے۔

سرد جنگ، وہ جنگ ہے جس میں دو ممالک باقاعدہ آمنے سامنے مڈبھیڑ سے اجتناب کرتے ہوئے، جنگ کا باقاعدہ اعلان نہیں کرتے بلکہ بلواسطہ جنگ لڑتے ہیں۔

پروکسی جنگ، وہ جنگ ہے جس میں ممالک میدان میں اپنی فوج کو نہیں اتارتے بلکہ ان کے مخالفیں کو امداد دے کر ان کو کمزور یا نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ جسطرح پاکستان ہندوستان کے خلاف کشمیریوں کو استعمال کر رہا ہے۔ کشمیریوں کے سر پر بندوق رکھ کر ان کے خلاف لڑرہا ہے حالانکہ کشمیریوں کی شعور قوتیں بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کی آزادی نہیں چاہتا وہ بس چاہتا ہے کہ پنجاب کے دریاؤں میں پانی بہتا رہے اور پنجاب سرسبز ہو جائے۔

پرائی یا پروکسی جنگ میں بعض اوقات کرائے پر کام کرنے والوں(merecanaries)اور ایجنٹوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے

گوریلا جنگ، وہ جنگ ہے جس میں گوریلا لشکر چھوٹے چھوٹے دستوں (small bands) منقسم ہوکر جنگی علاقے میں خفیہ طور پر پھیلا دیئے جاتے ہیں، گوریلا لشکر اپنے لیئے نئے سرمچار، سنگت، دوستخواہ، معاون بنانے، اپنے مقصد کی تبلیخ(propaganda)اپنے لئے اسلحہ، کپڑا، توشہ، جوتے خریدنے اور لانے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے، فوجی تربیت اور جنگی کاروائی جیسے کام خفیہ طور پر کرتا رہتا ہے۔ گوریلا لشکر، سرمچار کس وقت کس راستے سے، کس جگہ کتنی تعداد میں آتے اور حملہ کرتے ہیں، اسکا پتہ نہیں ہوتا۔

گوریلا جنگ ایک ایسی جنگ جو دشمن کو نیست و نابود کر دیتا ہے، جس میں امریکا جیسے ملک کو شکست ہوا ہے۔

بندق اٹھانے سے پہلے آپ کو سو بار سوچنا ہوگا کہ میں نے بندق کس کیلئے اٹھایا ہے، آیا شوق اور اپنی خواہش کیلئے؟ اگر آپ شوق اور خواہش کیلئے بندوق اٹھاتے ہیں تو مت اٹھایئے۔ بندوق اٹھانے کی طاقت اس شخصیت کے اندر ہوگی جس کے اندر شعور و آگہی، انسانی تعلیمات، ذہنی پختگی اور فوجی ہونر ہوگا تاکہ وہ ٹوٹ نہ سکے بلکہ ایک فولاد کی طرح ہو جو دشمن کے سامنے ایک چٹان بن کر دشمن کے خلاف لڑ سکے۔

آزادی کی جنگ لکھنے اور بولنے میں بہت آسان ہے لیکن جنگ کرنا بہت مشکل ہے، آزادی کی جنگ میں سروں کو قربان کر دینا ہوگا، اپنی ذاتی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا، آزادی کی جنگ بندوق سے نہیں بلکہ دماغ سے لڑی جاتی ہے۔ بندوق اٹھانے سے پہلے آپ کو کئی بار سوچنا ہوگا کیونکہ یہ آزادی کی جنگ ہے، اس میں خوشیاں نہیں بلکہ غم و دکھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پرکٹھن راستہ، پیاس، بھوک، قوم کا درد، گھر کے جنجال، بچوں وبیوی کی جدائی، ماں باپ و رشتہ داروں سے دوری سب کچھ سہنا ہوگا۔ سات سات دنوں بھوکا رہنا، مہینوں بھر پیدل سفر طے کرنا ہوگا۔ آزادی کی جنگ میں اپنا جان و مال قربان کرنے سے پہلے اپنے باطن کو قربان کر دینا ہوگا اور اپنے اندر ایک انقلابی شخصیت پیدا کرنا ہوگا، جب آپ انقلابی ہونگے تب آزادی آپکے قدموں میں آزادی بخود ہی آئے گا۔

گوریلا سرمچار، وہ سرمچار ہے جو جنگی میدان میں سروں کی باختگی کا سودا کرتے ہیں، زندگی وہ نہیں جو آپ خود جیو، زندگی وہ ہے جو دوسروں کیلئے جیو۔ حقیقت میں سرمچار اپنے لیئے نہیں لڑے ہیں بلکہ اپنی قوم اور اپنی وطن کی دفاع کیلئے اپنی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔