کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے سامنے احتجاج جاری

110

بھائیوں پر کوئی جرم ہے تو عدالت میں پیش کرکے سزا دے، اس طرح کسی شخص کو لاپتہ کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ملکی قانون کو روندنے کے مترادف ہے – لاپتہ عبدالواحد کرد اور داد محمد کرد کی ہمشیرہ

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ کو 3543دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے سیاسی و سماجی کارکنان کے ایک وفد نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ عبدالواحد کرد اور داد محمد کے لواحقین نے پریس کانفرنس کی۔

لاپتہ عبدالواحد کرد اور داد محمد کرد کے بہن سیماء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائیوں عبدالواحد کرد اور داد محمد کرد کو مورخہ 2 جون 2010 کو ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اسپنی روڈ سےان کی گاڑی سمیت اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اغواء کے وقت اُن کی گاڑی کے اصل کاغذات اور دیگر اشیاء بھی اُن کے پاس موجود تھے جس میں کیش اور سونا بھی شامل تھا اور پھر گھر میں لوٹ مار شروع کی گئی جس میں پیسے اور سونے کا سیٹ لے جایا گیا اور ساتھ ہی گھر میں موجود خواتین کی بے عزتی کی گئی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ کچھ عرصہ پہلے ہمیں اطلاع ملی کہ میرے بھائیوں کی گاڑی فاطمہ جناح روڈ کے شوروم بنام حاجی موٹرز پر کھڑی ہے جس پر ہم شوروم پہنچے تو میرے بھائیوں کی گاڑی کھڑی ملی، ہم نے بروقت پولیس کو اطلاع دی جنہوں نے فوراً شوروم میں کھڑی گاڑی اور شوروم کے مالک محمد نعیم ولد عبدالرازق قوم کاکڑ ساکن گوالمنڈی چوک پر گرفتار کرکے سٹی تھانہ لائے ، محمد نعیم کا بیان زیر دفعہ 161ض ف کے مطابق قلم بند ہوا جس میں ملزم محمد نعیم شوروم کے مالک نے گاڑی کے متعلق بتایا کہ مذکورہ گاڑی اس شوروم پر میجر سیف نامی شخص نے دی تھی اور بتایا کہ گاڑی کا مالک ہوں اور فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ میجر سیف نے اپنا پتہ اور ٹیلی فون نمبر بھی دیا تھا اور کئی دفعہ میرے شوروم آتا جاتا رہا ہے۔

سیماء نے کہا کہ ہم عدل و انصاف پر یقین رکھتے ہیں اس لیے کوئی ازخود فیصلہ یا حتمی رائے قائم کرنے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ اگر میرے بھائی عبدالواحد کرد اور داد محمد کرد کے خلاف کسی قسم کا بھی کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹیں اور مقدمہ چلائیں اگر الزام ثابت ہو تو انہیں پھانسی بھی دی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا لیکن اس طرح کسی شخص کو اغواء کرکے غائب کرنا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ملکی قانون کو پاؤں تلے روندنے کے مترادف ہے۔یہ کونسا قانون ہے کہ کسی شخص کو غائب کرکے پورے خاندان کو ذہنی کرب میں مبتلا کیئے جارہا ہیں۔

انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج آپ کے توسط سے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ میرے بھائی کے اس جبری گمشدگی کا نوٹس لیکر ان کی بحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا ہے جن میں بچے خواتین بھی شامل ہیں، ہزاروں لاپتہ افراد کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ویرانوں میں پھینکی گئی یا اجتماعی قبروں میں دفن کیئے گئے ہیں۔ پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو یا عدلیہ یا پارلیمنٹ سب کے سب پاکستان کے خفیہ اداروں کے حواری ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو مکمل ایک دشمن قوم کی حیثیت سے ظاہر کیا ہوا ہے۔ پاکستانی حکمران دنیا بھر کے اداروں دیگر تنظیموں اور عالمی برادری کو ان ناجائز گرفتاریوں اور پرامن جدوجہد کے خلاف گمراہ کررہے ہیں۔ ہزاروں بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں پاکستانی ادارے مہذب دنیا سے اپنے جرم کو چھپانے کے لیے مختلف قسم کے جھوٹ، حیلہ سازی دھوکے کا سہارا لے رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بلوچ گمشدہ نہیں ہیں بلکہ پاکستانی فورسز کے حراست میں ہیں جو بالکل دہشت گرد نہیں بلکہ جنگی قیدی ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکمران بلوچوں کے خلاف بیرونی امداد کو استعمال میں لارہے ہیں اب عالمی برادری کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے اور بلوچ مسئلے کو جانچنا چاہیے، پنجابی قوم چین کیساتھ ملکر بلوچ نسل کشی کی بڑی تیاری کررہی ہے جس کی عالمی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔ بلوچ اقوام متحدہ سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے معاملہ کے تہہ تک پہنچ کر بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان خاندانوں سے اصل حقائق اور ڈیٹا جمع کریں اور متاثرین کو ان کے پیاروں تک رسائی دلائے۔