چاغی: سیندک پراجیکٹ ملازمین کا مطالبات کے حق میں احتجاج

226

پراجیکٹ ملازمین نے مطالبات کے حق میں احتجاجاً دھرنا دیا۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک پراجیکٹ کے ملازمین نے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کردیا ہے، مظاہرین مختلف سیکشن بند کرکے، ایڈمن بلاک کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔

ملازمین کے مطابق پروجیکٹ انتظامیہ کا رویہ ملازمین کے ساتھ ہمیشہ ہتک آمیز رہا ہے، دو سال سے ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے اور ہمیں یونین سازی کا حق تک نہیں دیا جارہا ہے جبکہ تنخواہوں میں کمی کے ساتھ صحت اور دیگر بنیادی سہولیت فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ ملازمین کو بونس، میڈیکل الاونس اور چھٹیاں تک نہیں دی جاتیں۔

ملازمین نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پروجیکٹ انتظامیہ ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرتا ہے تو احتجاج کو وسعت دیا جائے گا۔

گذشتہ دنوں بی بی سی اُردو نے سیندک پراجیکٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کیا تھا کہ 1995 میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تیکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کردیا گیا جس کے بعد 2003 سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔

یہاں کان کنی اور صفائی و پیداوار کا کام چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس ہے۔

علی احمد خان نے 2003 سے 2008 تک سیندک میں ملازمت کی، اس کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں تنخواہ بہت کم تھی، چینی کمپنی بین الاقوامی کمپنی ہے لیکن ملازمین کو 80 سے لے کر 120 ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی جس وجہ سے ملازم طبقہ بدحال ہے۔

احمد یار نے 2003 سے 2010 تک سمیولیٹر سیکشن میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کیا۔ ان کے مطابق وہاں ملازمت کانٹریکٹ پر ہوتی ہے، جب سال پورا ہوتا ہے تو پھر اس میں توسیع کردی جاتی ہے اگر کسی ملازم کا کوئی مسئلہ اٹھے تو بغیر اس کا موقف جانے، بات سنے اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔

’یونین سازی کی اجازت نہیں اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے ملازمت سے فارغ کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی تم تو لیڈر بن گئے ہو۔‘

ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’جو ملازم دیہاڑی دار ہیں انھیں چار ماہ کی مسلسل ملازمت کے بعد چھٹی ملتی ہے۔ ماسک اور شوز وغیرہ ہوتے ہیں جو ماسک دیے جاتے ہیں وہ گیس ماسک نہیں بلکہ ڈسٹ ماسک ہوتے ہیں جبکہ سلفر گیس کی بو شدید آتی ہے۔ حادثے میں اگر کوئی ملازم مر جائے تو کوئی انشورنس نہیں۔‘

بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق سیندک ممنوعہ علاقہ ہے، مرکزی سڑک سے لے کر منصوبے تک ایف سی، لیویز اور پولیس کی درجن کے قریب چوکیاں قائم ہیں۔ اس علاقے میں چار گاؤں بھی واقع ہیں جن کے رہائشی لوگوں کو خصوصی پاس جاری کیے گئے ہیں جن کی مدد سے انھیں آمدورفت کی اجازت ہے۔

ایف سی کی ہر چوکی گاؤں کے داخلی راستے پر بھی موجود ہے۔ ان گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک ہائی سکول اور ہسپتال کی سہولت فراہم کی گئی ہے لیکن حاملہ خواتین شہر کے ہسپتال جاتی ہیں۔

سیندک کے متصل گاؤں کی سڑکیں آج بھی کچی ہیں جبکہ بچے کھلے پتھریلے میدان میں کھیلتے ہیں۔ کوئی گراؤنڈ موجود نہیں۔ کمپنی نے دو دیہاتوں کو بجلی فراہم کی تھی جبکہ دو اس سے محروم رہے بعد میں انھیں سولر پلیٹس لگا کر دی گئیں۔

سیندک کے آس پاس تافتان، نوکنڈی اور ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین واقع ہیں۔ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

پانی صرف چند کلومیٹر تک پہنچ پاتا ہے جبکہ بجلی کی عدم فراہمی اور موٹروں کی فنی خرابی کے باعث مقررہ مقامات پر پانی نہیں پہنچ سکا۔

سیندک منصوبے سے ملنے والی آمدنی سے بلوچستان کے سیاست دان اور عوام دونوں ناخوش ہیں۔

یہ بلوچستان کے سیاسی بیانیے کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ سینیٹ سے لے کر صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر اس منصوبے پر بات کی جاتی ہے۔