میڈیا کی آڑ میں دھوکا دہی یا راہنمائی؟ – احمد خان زہری

485

میڈیا کی آڑ میں دھوکا دہی یا راہنمائی؟

تحریر: احمد خان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بےزری نے بجھا دیا
جو گراں تھے سینہ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر

کسی بھی نگر میں جب کبھی کوئی معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے، تو وہاں بسنے والے مخلوقات (انسان، چرند، پرند) سب پریشانیوں اور نقصانات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ زندگی کی آسائشوں یعنی امن، شانتی، آزادی رائے، بہترین مستقبل کی فکر، بنیادی ضروریات، اور جینے کا اصل مقصد جانچنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں- وہیں پر ان نقصانات اور محرومیوں اور اندھیروں کے خاتمے، معاشرتی مسائل کے حل اور معاشرے میں بہت سی مختلف پائی جانے والی کمی کوتاہیوں کو پورا کرنے کے لیئے وہاں رہنے والے کچھ مفکر، دانشور یا کسی بھی فکر سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرنے کے لیے مسیحا بن کر ابھرتے ہیں۔

قریباً یہ پندرہ سال کی بات ہے جب میں نے شعوری حوالے سے ہوش سنبھال کر اس معاشرے میں قدم رکھا- تب سے اس معاشرے کو دن بہ دن بگڑتے دیکھا لیکن کبھی سنبھلتے ہوئے نہیں دیکھا- ماضی میں یہاں قبائلی، ذاتی مسئلے عروج پکڑ کر کسی دن بڑے جانی یا مالی نقصان کا سبب بن کر ابھرتے تھے- لیکن یہ بات ماننی پڑیگی کہ یہاں کے باسی غیرت مند اور با ضمیر تھے – سرداری و نوابی کا غلبہ تو صدیوں سے اس زہری قبیلے کا مقدر بن گیا تھا- اس لیئے ماضی اور موجودہ حال میں میں بھی یہی سسٹم لوگوں پہ مسلط تھا اور ہے-

نوابی و سرداری نظام، آپسی دشمنی، قبیلہ پرستی کے جنون میں قتل و غارت، چوری و ڈکیتی، ذاتی انا اور تسکین کے لیئے دوسروں پہ اپنی سوچ مسلط کرنا ہر دو قدم پہ سَننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔

لیکن اب ریاست نے بھی قدم جاڑھ دیئے اور مذکورہ بالا انسان دشمن عزائم کو مزید تقویت دینے میں ریاست نے یہاں کے باسیوں کا ضمیر، حیا، غیرت کو خرید کر اپنے ہی کشت و خون میں مبتلا کرکے تماشہ دیکھنے میں مگن اور جشن مناتے ہوئے نظر آتا ہیں- اور یہاں کے باسیوں نے اپنی ذاتی انا، خواہش، تسکین، اور مرادیں پوری کرنے کے لیے اپنی عزت، غیرت، شرم و حیا خوشی خوشی ریاست کے گود میں ڈال کر انسانیت سوز مظالم میں شریک ہونے کی حامی بھر لی۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ان معاشرتی بگاڑ کے خاتمے کیلئے کوئی مسیحا ابھر کر سامنے ضرور آتا ہے تو کچھ سالوں بعد یعنی 2016 میں ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی گھٹنا گھٹی کہ میڈیا کی صورت میں دو آئی ڈی (احوالِ زہری اور پریس کلب زہری) ہماری راہنمائی کے لیئے میدان میں کُود پڑے- ہم ناقص العقل لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب ہمارے معاشرے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا- کیونکہ میڈیا کی مدد سے ہماری بہترین تربیت کرکے ہم نوجوانوں کو سیدھا راستہ دکھانے میں راہنمائی کی جائے گی- معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کے روک تھام کے لئے یہ ایڈمینز بھرپور کردار ادا کرکے ہمیں ماضی کی جکڑی ہوئی زنجیروں سے آزاد کرلینگے- اس لیئے یہی کچھ سمجھ کر ہم نے مسیحاؤں کا خوب ساتھ دے کر ساتھ ساتھ تعریفوں کے بھی انبار کھڑے کردیئے تھے- پہلے تو ان مسیحاؤں کی تائید و تقلید ایک گمان تھا، اب یہ حقیقت اور ضرورت بن گیا تھا- ہمارا معاشرہ اور ہمارے عوام کی راہنمائی کرنے کے لیے ہمیں سبز باغ دکھائے ہم سے داد وصول کیئے، ہم سے مدد طلب کرکے اپنی سیاسی امیج کو پروان چڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا گیا۔

آخر ہم تائید و تقلید کیوں نہیں کرتے کیونکہ جب انہوں نے اس کارِ خیر کا آغاز کیا تھا تو ہم نے انہیں مسیحا جو سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کی عہد کر رکھی تھی-

لیکن یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے اوپر اپنی سیاست مسلط کرنے کی کھلی سازش تھی، جسے ہم راہنمائی سمجھ کر ان کی ہر بات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر عمل کرنے لگے- ہمیں کبھی ان کے برے عزائم اور مستقبل میں پیش آنے والے نقصانات کا زرہ برابر بھی علم نہیں ہوا تب تک تین سال میں یہ ایڈمینز ہمیں اپنی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرکے ہمیں ذہنی اپاہج بنا چکے تھے –

ہمارے معاشرے کی سدھار کے لیے کبھی انہوں نے دو لفظ استعمال ہی نہیں کیئے کہ جس سے ہمیں اپنی راہنمائی نظر آئے اور ہم ایک بہترین راستے کا انتخاب کرکے اپنے قوم و علاقے کے لیے مفید ثابت ہوں- کیونکہ یہ ان کا ایجنڈا تھا ہی نہیں- ان ایڈمینز کو اپنی سیاست چمکانے اور اپنی سیاسی امیج کو بڑھانے کی فکر تھی جن کا ہم عوام نے بھرپور ساتھ دے کر خود کو ایک بار پھر ماضی میں دھکیل دیا-

لیکن ایک بات قابلِ تعریف ہے اور ماننی پڑیگی کہ احوالِ زہری کے ایڈمن نے کچھ آرٹیکل اس معاشرے کے سدھار کے لیے بھی تحریر کیں- لیکن وہ بھی کچھ سوشلسٹ لوگوں کو اپنی سیاست کی طرف راغب کرنے کی ایک چال تھی- ہاں اگر کسی نے ان سے کچھ سیکھا تو یہ کریڈٹ ایڈمن کو جاتی ہے- لیکن پھر بھی ان ایڈمینز نے جس طرح مسیحا بن کر کام کرنا تھا اس سے کافی ہمکنار نظر آتے رہے –

معذرت کے ساتھ برا نہ لگے تو ایک بار ان آئی ڈیز کا وزٹ کرکے آپ دیکھ لیں- ان کے نیوز فیڈ میں ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی تعریفیں، دو ٹکے کے سیاسی اشخاص کی جھوٹے دعوؤں کی کتونی پڑھنے کو ملے گی- انہوں نے ہمیشہ ہمارے راہنمائی کرنے کی سوچ کو ٹھیس پہنچا کر ریاست کے کسی دلال کی بَکی ہوئی بکواس کو لکھ کر لفظوں سے بھی کھلواڑ کی ہے-

اِن ایڈمینز نے بدنام زمانے کے بدنام ظالم ثناءاللہ زرکزئی اور اس کی بھائی نعمت اللہ زرکزئی کی سیاست چمکانے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی- کیا یہ ایڈمنز وہ دن بھول گئے ہیں جب ثناءاللہ اپنی ناپاک قدموں سے عزیز تراسانی کی چھاتی پر چہل قدمی کر رہا تھا اور پھر بے رحمی کے ساتھ ہاتھ باندھ کر اس کو شہید کیا گیا تھا-

امان اللہ اور اُس کے دو ٹکے کے فرزندوں کی تعریف کرنے کو کبھی معیوب نہیں سمجھے کہ ان کی وجہ سے کتنے گھر، کتنے کوکھ اجڑ گئے تھے –
یہ بات وہ بھول سکتے ہیں کیونکہ کہ ایسا قہر ان کے اپنے آشیانے کو کبھی چھوا نہیں ہے-
لیکن شاید اب کچھ چھو کر گزرے- اللہ جانے—

حالانکہ مسیحا بن کر تو ان ہی کے خلاف لب کشائی کرنی تھی، انہی کے خلاف بولنا تھا- کیونکہ یہ معاشرہ قبیلہ اور علاقہ انہی بدنام کرداروں کی وجہ سے اس بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا-

کبھی ریاستی دلال کیپٹن قدیر کی فوٹو پروفائل پر تو کبھی کسی سیاسی منافق کی تصویری جھلکیاں اپلوڈ کرکے داد وصول کرتے ہے- یہ کام کسی لکھاری، مسیحا یا راہنما کا نہیں ہوسکتا- یہ اعمال کسی بدکردار، بد اعمال اور شخصیت پرست منافق کی ہوتی ہیں – جوکہ محض اپنے قوم سے دھوکہ، دشمنی اور امیدوں پر پانی پھیرنے سوا کچھ بھی نہیں۔

احوالِ زہری کا ایڈمین عطاء اللہ عرف سردار داڑھی رکھ کر اپنے سیاسی آرٹیکلز کے آخر میں دعائیہ کلمات کا استعمال کرکے سستی شہرت پانے کے حصول کی خواہش نے دین کو بھی داغدار کردیا ہے- یہ داڑھی تو سنت کے طور پر رکھ کر لوگوں سے بھلائی برتنے کا سبق دے کر راہنمائی کرتی ہے- لیکن یہاں اس کا کچھ غلط استعمال ہو رہا ہے – اور اب اس حقیقت سے یہاں کے لوگ آشنا ہوچکے ہیں- داڑھی رکھ کر دیندار ہونے کا ڈھونگ رچا کر سیاسی شہرت کو عروج دینے کی سازش ہے- اب یہاں سب سمجھ چکے ہیں کہ دین میں داڑھی ہے، داڑھی میں دین نہیں۔

پریس کلب زہری کا ایڈمن خالد بارانزئی میٹرک فیل ہماری کیا راہنمائی کر سکتا ہے- جذباتی الفاظ استعمال کرکے ہمیں بےوقوف سمجھنے اور کرنے کی اب یہ سازش زیادہ دیر چلنے والی نہیں، اب مکمل پول کھل چکا ہے۔

میڈیا کی مدد لے کر نوابوں، وڈیروں اور ریاست کے عزائم کو تقویت دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے اور ذہنی و نفسیاتی غلام بنانے کا یہ دکان بند کر دو تو شاید ہم سب کا بھلا ہوجائے- اس میڈیا کا کبھی حصہ نہ بنیں جو بلوچ نسل کشی اور استحصال کی منصوبوں میں ملوث قبضہ گیر ظالم اور دہشت گرد ریاست کی حمایت کرتے ہوں- کسی غیر کی صفت و ثنا میں مگن اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور حقیقی مقصد سے سبکدوش ہونا مستقبل میں ایک بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

جب تم اپنے آرٹیکلز میں نام نہاد نوابوں اور قبضہ گیر ریاست کی صفت کرتے ہو تو ان کے لیے بھی سوچو جنکا گھر انہی نوابوں اور ریاست کے دلالوں کی وجہ سے اجڑا ہوا ہے، کئی سالوں سے ان کے آشیانے میں قہقہے کی آواز سنائی نہیں دی ہے- انہی کی وجہ سے آج ماں بہنیں اپنے بیٹے اور بھائیوں کی دیدار کے لیے ترس گئے ہیں اوران کا ہر دن یہ اس اذیت میں گذر جاتا ہے کہ میرا بیٹا کس کے عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم برداشت کر رہا ہے –

لہٰذا اچھے اور برے کی تمیز کرکے ان ظالموں کی حقیقت کو دنیا اور اپنے قوم و قبیلے کے سامنے پیش کریں تاکہ نوجوانوں کو ایک صحیح راستہ چننے میں کوئی دقت پیش نہ آئے- سیاست اپنی جگہ مگر شاہ سے زیادہ وفادار بننے کی بجائے حقیقت پسندی کا اظہار سب کی ذمہ داری ہے-

اگر اتنا نہیں کرسکتے اور کسی کی درد کی دوا نہیں بن سکتے تو بہتر ہوگا کہ کسی مظلوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے کاروبار کو یہیں پر ختم کریں تاکہ کسی کی دل آزاری کل تمھارے گھر کی بربادی کا سبب نہ بنے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔