طلباء سیاست پر پابندی – احسان بلوچ

390

طلباء سیاست پر پابندی

احسان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طلبا سیاست پر پابندی لگانے کا مقصد ہے کہ طلبا کو علم اور سوچنے سے لاتعلق کیا جائے۔ جب طلبا علم سے دور ہوتا ہے اور سوچنا چھوڑ دیتا ہے تو ایسے ماحول میں پڑھنے اور نہ پڑھنے کا کیا تُک بنتا ہے۔

طلبا سیاست طلبا کے مسائل اور مشکلات حل کرنے اور طلبا کی غیر نصابی سرگرمی ہے، جب محکمہ تعلیم غیر نصابی سر گرمیوں پر پابندی لگائے، طلبا کو مثبت سرگرمیوں سے دور رکھنے کا نوٹیفیکشن جاری کرے، اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی مریض کو کہیں کہ جی آپ دوائی کھانا چھوڑ دیں خود بخود ٹھیک ہوجاو گے۔

طلبا سیاست طلبا کی اور سماج کی وہ دوائی ہے، جو سماج اور طلبا کی بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے، ان بیماریوں میں تنگ نظری ،اور انتہا پسندی کی بیماریاں قابل ذکر ہیں۔ جب طلبا اس طرح کے بیماریوں سے صحت مند ہوتی ہیں، تو پورا سوسائٹی اس طرح کے بیماریوں سے چھٹکارا پاتی ہے۔

آج کے ہمارے سوسائٹی میں تنگ نظری، انتہاپسندی، نفرت، کم علمی، بددیانتی، کرپشن، عام بن گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ سوسائیٹی مختلف بیماریوں کا شکار ہے اور ان بیماریوں کا حل مثبت طلبا سیاست ہے۔ جو قوتیں طلبا سیاست پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں، وہ سوسائیٹی کو بیمار کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں، بیمار سوسائیٹی میں لوگ بیمار ہوتے ہیں اور بیمار لوگ سوچنے، سمجھنے اور غور فکر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی ایک مقصد ہوتا ہے ان عناصر کی جس نے طلبا سیاست پر پابندی لگانے کا کام کیا ہے۔ ہم طلبا اور بلوچ طلبا کئی سالوں سے اس پابندی کا سامنا کررہے ہیں، ہمارے قائدین کو جیل و زندان میں ڈال دیا ہے، بی ایس او کا نام لینا بھی ایک گناہ بن گیا ہے، بی ایس او کی علمی و فکری سیاست کو پابندی لگا کر ان قوتوں نے پہلے سے سوسائیٹی کو نیم مردہ بنا دیا ہے۔ اب اس کو مزید موت کی طرف لے جا رہے ہیں۔

بی ایس او کی سیاست کی وجہ سے نوجوانوں میں شعور آئی ہے، پڑھنے اور لکھنے کا رجحان بڑھا ہے، ڈبیٹ و ڈسکشن کا ماحول کے ساتھ سیمنار پروگرام، لیکچر ہوا کرتے تھے، جس سے طلبا کے اندر خود اعتمادی آتی تھی اور طلبا کے لیئے علم کے دروازے کھلتے تھے جو کہ اس بوسیدہ تعلیمی نظام سے طلبا نہیں سیکھتے تھے۔

ہر دور میں بلوچ طلبہ سیاست بحران کا شکار ہوتا چلا ہے اور اس کا ذمہ دار ہر وقت وہ بلوچ دشمن عناصر اور پارٹیاں ہوتی رہی ہیں جو پارلیمانی سیاست کے حصے ہیں۔ جب بھی طلبہ سیاست اپنے عروج پہ پہنچنے کے قریب ہوتی تو بہت سے ایسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں پوری قوم کو نقصان اور مسئلوں ست دوچار ہونا ہوا ہے۔ کوئی بھی ان حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا، بےشک حقیقت خوف سے وابستہ ہے۔ حالانکہ طلبہ تنظیمیں اور کسی چیز سے وابستہ نہیں ہیں، محض وہ آئینی دائروں میں رہ کر طلبہ حقوق کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے قوم کی ترقی کے لیئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اور تاریخ کے بدترین بحران, ظلم, غلطیاں اور کچھ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ردعمل میں کچھ قوتیں ہیں۔ جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے تاکہ پوری قوم حقیقت سے دور ہو جائے پھر جہالت کے اندھیروں میں پڑے رہیں تاکہ لوٹ مار آسان ہو جائے۔ طلبہ تنظیموں اور طلبہ سیاست کو جتنی بحرانوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یا جتنی مصیبتیں واقع ہوئی ہیں سو کچھ ہمارے اپنے فعل اور غلط فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ بلوچ دشمن عناصر کی وجہ سے لیکن بلوچ طلبا کے تمام غلطیوں کے باوجود انہوں نے طلبا کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے، جو تمام بلوچ طلبا کو ایک جگہ پر اکھٹا کرکے ان کی تعلیم و تربیت کرتے تھے۔

بی ایس او نے بلوچ نوجوانوں کی ہر طرح سے تربیت کی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا آج مختلف جگہوں پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ایسے تمام اعمال قابل مذمت ہوں گے جو طلبا کو علم اور تعلیم سے دور کریں گے۔ بلوچ طلبا کا یہ کاروان اب نہیں رکے گا، اس کی جڑیں بلوچ طلبا کے دلوں میں ہیں اور دل کا رشتہ اک نوٹیفکشن جاری کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔