شہدائے مرگاپ و ان کی قائدانہ صلاحیتیں – عبدالواجد بلوچ

220

شہدائے مرگاپ و ان کی قائدانہ صلاحیتیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قائدانہ صلاحیتیں قدرت کا تحفہ ہیں، جو ہر شخص کو نہیں ملتیں، بعض لوگ پیچھے رہ کر خاموشی سے کام کرنا پسند کرتے ہیں اور جب انہیں لیڈ کرنے کا کہا جائے تو وہ گھبرا جاتے ہیں اور بعض لوگوں میں وہ صلاحیتیں ہیں ہی نہیں لیکن انہیں بزور لاکر لیڈرشپ کے گدّھی پر براجمان کیا جاتا ہے. قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے افراد ہر قسم کے حالات میں اپنے ساتھ موجود لوگوں کے لیئے بہترین رہنما ثابت ہوتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے حالیہ فیز میں شہید غلام محمد بلوچ وہ واحد لیڈر تھے جن کے وجود میں وہ قائدانہ صلاحتیں موجود تھیں، جو پیچیدگیوں کو بخوبی بھانپ سکتے تھے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہیں اس امر کا اندازہ تھا کہ کب کہاں اور کس طرح سخت حالات کا سامنا کیا جائے۔

قائدانہ خصوصیات کچھ تو قدرتی ہوتی ہیں، کچھ تجربوں اور حالات کے باعث پیدا ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں بھی وہی لوگ کامیاب قائد ثابت ہوئے جن کے اندر قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں اور جنہوں نے مشکل حالات میں اپنی قوم کی رہنمائی کی۔ شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے تجربے اور صلاحیت سے یہ ثابت کیا تھا کہ بلوچ قومی تحریک کو کس طرح اور کس بنیاد پر چلایا جائے یقیناً یہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں تھیں کہ انہوں نے بروقت مکران سے لیکر جھالاوان، بولان سے لیکر سبی تک قبائلی سماج میں قبائلی نوابوں کے اندر بلوچ کاز کی حقیقی ترجمانی کی یہ ان صلاحیتوں کا سرچشمہ تھا کہ انہوں نے شہید بالاچ خان مری اور شہید نواب اکبر خان بگٹی کے محفل میں بلوچ بزگر کی افادیت پر مضبوط دلیلیں دیں. شہید غلام محمد بلوچ ایک دور اندیش سیاست دان تھے (اس کا قطعاً مقصد یہ نہیں کہ ہم مردہ پرست لوگ ہیں بلکہ یہ وہ کردار تھے جن کی مثالیں دیتے ہیں ہم، ان کی غیر موجودگی سے آج بلوچ تحریک سراسیمگی،مایوسیت و پیچیدگیوں کا انبار بن چکا ہے) ان کی دوراندیشی ہی تھی کہ انہوں نے بلوچ قومی سوال پر بی این ایم جیسا عظیم پارٹی بنا کر اس مقدس پارٹی کو ریاستی چھتری تلے اُن گِدّھوں کے حصار سے نکال کر بلوچ قوم کی حقیقی ترجمانی پر گامزن کیا.

شہید غلام محمد بلوچ کے اندر رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت موجود تھی، وہ سستی اور سہل پسندی سے گریز کرتے تھے انہوں نے کارکن اور لیڈر کے درمیان فاصلے کا خاتمہ کیا تھا. مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اُس مقدس پارٹی پر براجمان دوست کس روش کو لیکر چل رہے ہیں جن کے اندر نا قائدانہ سوچ ہے اور نا ہی وہ بلوچ قومی سوال کا دفاع صحیح معنوں میں کررہے ہیں، جس بلوچ نیشنل موومنٹ کی آبیاری شہید قائد غلام محمد بلوچ نے اپنے خون سے کی تھی آج شاید اس کے باقیات موجود ہوں، پر ہمیں نظر نہیں آتے. جس طرح شہید غلام محمد بلوچ نے تنقید کو بخوشی سنا جس طرح شہید نے کارکنان کے خدشات و تحفظات کو سنا اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی تھی شاید ہی وہ رویہ آج موجود ہو گو کہ مَیں اس وقت بی این ایم کا ممبر نہیں تھا لیکن جب جب ہم نے سیاسی معاملات میں شہید غلام محمد بلوچ کے ساتھ تنقیدانہ سوالات کیئے تنقیدانہ رویہ اپناتے تو انہوں نے کبھی بھی یہ رویہ نہیں اپنائے کہ اپنے آگے والے کو خاموش کرکے انہیں مختلف القابات سے نوازے بلکہ وہ انہیں سنتے تھے آج کل تو سننا اپنی جگہ الٹا حقیقی سیاسی کارکنان کو دیوار سے لگا کر انہیں متنازعہ کرنے کا روش عام ہے۔

بالکل اسی طرح اس وقت کے جمہوری وطن پارٹی و بعد کے بی آر پی کے بانیوں میں شمار لیڈر شیر محمد بلوچ اور جلیل ریکی جیسے نڈر دوستوں نے جس طرح اپنے قائدانہ صلاحیتوں سے مختصر مدت میں پارٹی کو بلوچ عوام کے اندر فعال کیا، جس کی مثال شاید کوئی آج دے. شہید شیر محمد بلوچ نے ہمیشہ اپنے وژن اور خیالات کی ابلاغ کی اپنے آئیڈیاز کو چھپا کر رکھنے والا شخص نہیں تھا، ایسا شخص کبھی بھی لیڈر نہیں بن سکتا جو اپنے خیالات کو چھپائے، شہید شیر محمد بلوچ کا یہ ماننا تھا کہ نئے اور پرانے خیالات کے باعث ٹیم کا ہر شخص انفرادی طور پر بہترین کام کر سکتا ہے اور یہ سب مل کر ہی ایک بہترین ٹیم بناتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ ایک مختصر مدت میں بلوچ ریپبلکن پارٹی ایک قومی پارٹی بن کر ابھری.کیونکہ ان کا یہ ماننا تھا کہ ایک لیڈر کامیابی کا سہرا اپنے سر نہیں لیتا، وہ اسے اپنی پوری ٹیم کی کاوش سمجھتا ہے اور ملنے والے فائدوں کو سب میں برابر تقسیم کرتا ہے۔ اس لیئے تو اس وقت سیاسی کارکن اور لیڈرشپ کے مابین فاصلہ نہیں تھا اور آج بلوچ ریپبلکن پارٹی کے قائد جنہوں نے چن چن کر سیاسی کیڈرز کو اپنے صفوں سے نکال باھر کیا اور جس طرح آئے روز ان کی موقف میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، شاید اس سے پہلے اس وقت وہ اس طرح تھے لیکن انہیں یہ اندازہ تھا کہ حقیقی قائدوں کے بین انہیں یہ ہمت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ ان قائدوں کی جڑیں عوام میں پیوست تھیں.

بہرکیف جس طرح ان قائدین نے اپنی صلاحیتوں سے اپنا لوہا منوایا اور اپنے آپ کو اس مقصد کی خاطر وقف کیا جس سے عوامی اہمیت کو فروغ ملتا تھا، وگرنہ آج کے ان سربراہان کے ہاں عوام کی اہمیت کا اندازہ ہمیں اچھی طرح ہے.

شہید لالا منیر کے کردار اور ان کی ولولہ خیز قیادت سے انکار ناممکن ہے کیونکہ ان کی قائدانہ کردار اور مضبوط موقف ہی تھی جس سے پنجگور میں انقلابی سوچ و عوامی اہمیت کا بول بالا تھا، وگر نہ وہاں پہلے سے بھی مسترد شدہ قوتیں متحرک تھیں لیکن ان کی جڑیں عوام میں پیوست نہیں تھے اور آج شہید لالا منیر بلوچ کی غیر موجودگی میں اس خلاء کو کوئی پُر نہیں کررہا حالانکہ کہنے کو تو موجودہ بی این ایم کی قیادت کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے لیکن جس علاقے میں اُس وقت انقلاب کا بول بالا تھا اور آج کس کا بول بالا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں.

اس امید کے ساتھ کہ موجودہ بلوچ تحریک کو ایک بار پھر شہدائے مرگاپ جیسی قیادت درکار ہے کہ خدائے بزرگوار پھر سے بلوچ قوم کو ان قائدین کی طرح لیڈر مہیا کرے جو صحیح معنوں میں اس تحریک کی رہنمائی کریں.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔