بلوچ راجی آجوئی سنگر – زہیر بلوچ

889

بلوچ راجی آجوئی سنگر

زہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان پر قبضہ کرنے کے بعد ریاستِ پاکستان نے مختلف حیلے بہانے اور حربے و سازشوں سے کوشش کی ہے کہ بلوچستان کو پاکستان کا قانونی حصہ قرار دیں، جس کی ایک مثال پاکستان کا جھوٹ پر مبنی نصابی کتابیں ہیں، جس کے اندر پاکستانی قابض نے اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ تاریخ کو مسخ کیا جائے بلوچ کو بلوچیت کے بجائے پاکستانیت کے دائرے میں لائیں لیکن اس میں بھی ریاست ناکام رہا کیونکہ بلوچستان کی تاریخ ہی مزاحمت کی تاریخ ہے۔ پاکستان کے قبضے کے دن سے ہی بلوچ سپوتوں نے اپنے سر پر کفن باندھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے پہاڑوں کا رخ کیا اور اپنے محدود افرادی قوت سے دشمن کا جوان مردی سے مقابلہ کیا اور دشمن کو یہ واضح پیغام دیا کہ بلوچستان پاکستان نہیں بلکہ ایک آزاد ریاست ہے اور اگر کوئی بھی ریاست بلوچ زمین پر قبضہ کرے گا، تو اُسے اسی طرح کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ دشمنوں اور قابضوں نے ہمیشہ سے بلوچ قوم کو ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان کیا ہے۔ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، بلوچ کو بلوچ سے لڑا کر ہمیشہ بلوچ کی افرادی و مزاحمتی قوت کو کمزور کیا گیا ہے لیکن اُس وقت بےتعلیمی اور قبائلیت کی وجہ سے عام نوجوان کو فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملا ہے جبکہ فیصلے ہمیشہ کچھ نام نہاد سردار کرتے رہے اور قبائل کو دوسرے قبائل سے لڑاتے رہے، اس سے بلوچ کی طاقت کمزور ہوئی اور وہ اپنی ایک عظیم اور مضبوط فوج بنانے میں ناکام رہی لیکن پیچھلے غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے، اس مرتبہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ بلوچ قوم نے اس مزاحمت کو دوسرے مزاحمتوں کی طرح کچھ مخصوص افراد تک نہیں بلکہ اس کو ایک قومی پروگرام کے دائرے میں لاتے ہوئے اداروں کی پابند بنایا۔

پہلے کی طرح اس قومی تحریک میں بھی کچھ وقتوں کیلئے ایک دوسرے کے خلاف نوک جھونک ہوتی رہی لیکن بلوچستان کی موجودہ جنگ چونکہ اداروں کی پابند ہے، اس کی لیڈرشپ کو جلدی احساس ہوا کہ ہمارے اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے دشمن چونکہ ہمیشہ موقع کی تعاقب میں ہے کہ قومی تحریک کو نقصان پہنچائیں، ان کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑائیں لیکن اس مرتبہ دشمن کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ پہلے ہی میں نے عرض کیا تھا کہ موجودہ جنگ اداروں کے ماتحت ہے۔ فرد غلط فیصلے کر سکتے ہیں لیکن ادارے نہیں اس لیے وقت و حالات کے نزاکت، قومی خواہشات کے روبرو بلوچ قومی فوج، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی کے لیڈرشپ نے ایک ساتھ مل بیٹھ کر دشمن کے خلاف ایک ساتھ کارروائی کرنے کی حامی بھری، اس اتحاد میں شہید محترم جنرل اُستاد اسلم بلوچ کا ایک تاریخی اور عظیم کردار رہا ہے۔ جنرل اسلم بلوچ کی قربانیوں محنت و مشقت اور قومی تحریک سے سچے جزبے نے جلد ہی بلوچ قوم کو بلوچ کا قومی فوج نصیب کیا بلوچ قوم کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیمیں ایک ہی پلیٹ فارم سے دشمن کا مقابلہ کریں اس کی تکمیل کیلئے سب دوستوں نے اپنے دن رات ایک کیئے اور بلوچ قومی تحریک کو براس یعنی کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر نصیب ہوا، جس میں بلوچستان لبریشن فرنٹ جس کے سربراہ نامور بلوچ قومی رہبر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ ہیں اور بلوچستان لبریشن آرمی جس کے سابقہ کمانڈر اُستاد جنرل اسلم بلوچ تھے اور موجودہ سربراہ چیئرمین بشیر زیب کو مانا جاتا ہے جبکہ تیسرا اتحادی بلوچ ریپبلکن گارڈ ہے ان تینوں کا مشترکہ اتحاد یعنی براس ہے۔

براس کے قیام کا اعلان 10 نومبر کو سامنے آیا، جس میں بلوچ راجی آجوئی سنگر کا قیام کا اعلان ہوا اور اس کا ترجمان بلوچ خان مقرر ہوا۔ بلوچ خان نے اپنے اعلامیے میں کہا تھا کہ براس ایک روایتی اتحاد نہیں (بلوچ قومی تحریک میں روایتی اتحادیں رہی ہیں لیکن دیرپاء نہیں رہ پائے ہیں جبکہ کچھ ہی وقت میں پھر یہ ختم ہوئے ہیں) بلکہ اس کے برعکس براس کو بلوچ قومی فوج بنانے کی اُمیدیں ظاہر کی گئی، براس کے قیام کا قوم کئی وقتوں سے انتظار کر رہا تھا، بلوچ راجی آجوئی سنگر روایتی اتحاد سے ہٹ کر روایتی حملے بھی نہیں کرتا۔

براس کا پہلا حملہ 14 دسمبر کو کیچ کے علاقے تگران میں ہوا، حملہ اتنا شدید تھا کہ دشمن کی چھ سے زائد گاڑیاں بھی سنبھل نہ سکیں، حملے میں قابض فوج کے آٹھ اہلکار سے زائد کو قتل کیا گیا جبکہ اس حملے میں زخمی فوجیوں کی تعداد چودہ سے زائد بتائی جاتی ہے اس حملے نے دشمن کو مزید خوفزدہ کر دیا کیونکہ اس حملے کے بعد دشمن کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر کے نرمزاروں کے حملے بھی پہلے کی طرح چھوٹے پیمانے میں نہیں ہیں بلکہ ان کے حملے بھی شدید ہیں۔ اس حملے کے ویڈیو ایک جنوری کو براس کی میڈیا ونگ کی جانب سے شائع ہوا، ویڈو میں بلوچ انقلابی گلوکار میر احمد میر اور نامور بلوچ موسیقار منہاج مختار کی ایک ساتھ سرور فراز کی شاعری میں گیت بھی شامل تھا، ویڈو کے ساتھ ساتھ اس گانے کو بھی بلوچ قوم کی جانب سے بہت پسند کیا گیا گانے کے دو بند کچھ ایسے ہیں
آس پہ وطن روک اِنت براس پہ وطن روک اِنت
الم ءَ سوچیت دشمن براس پہ وطن روک اِنت

ویڈیو میں صاف صاف دیکھائی دیتا ہے کہ بلوچ سرمچاروں کے حملے سے دشمن کے فوجی پاگل سا ہو جاتے ہیں، ایک بھی جنگی اصولوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتا اور بلوچ وطن کے سپاہی اُن کو بری طریقے سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ براس کے حملے کے بعد قوم میں ایک نئی اُمید ہی جنم لیتا ہے، براس کا قیام دشمن کیلئے مزید خطرہ یہ ہے کہ براس مکمل ایک ادارے کی شکل میں ہے جہاں کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ مکمل ایک ادارے کی صورت میں موجود ہے جبکہ یہاں کوئی حکمران نہیں ہے اور فیصلہ ایک فرد نہیں بلکہ پورا ادارے کی رضامندی سے عمل میں لایا جاتا ہے۔

براس کے دوسرے حملے کی شدت سے قوم انتظار میں تھا کہ کب بلوچ فوج دشمن پر حملہ آوار ہوگا قوم کا انتظار 17 فروری 2019 کو ختم ہوا جب بلوچ قومی فوج کے سرمچاروں نے قابض فوج کے اہلکاروں پر پنجگور کے مقام پر ایک بھیانک حملہ کیا حملے میں قابض فوج کے چھ اہلکار ڈھیر ہو گئے، اس حملے میں قابض کے چھ اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کا اسلحہ بھی ضبط کیئے گئے، کچھ وقت بعد اس حملے کی بھی ویڈیو جاری کی گئی، جس میں صاف صاف دیکھائی دیتا ہے کہ پہلے دشمن کے اہلکاروں کو قتل کر دیتے ہیں اور بعد میں پھر ان کے اسلحے بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ براس سے خوفزدہ ریاست اس بھول میں تھا کہ براس کے حملے بس مکران میں ہی ہو سکتے ہیں اس لئے قابض فوج اس گُمان میں نہیں تھا کہ قومی فوج بلوچستان کے چپے چپے میں موجود ہے، دشمن کے گمان میں نہیں تھا رات کے اندھیرے میں اُن کے ساتھ اتنے بھی انٹیلی جنس سورسز ہو سکتے ہیں کہ قابض فوج کے اہلکار آج گوادر کی جانب روانہ ہیں لیکن براس نے اپنے پہلے حملوں میں یہ واضح کیا تھا کہ براس پہلے سے مختلف ہے یہ ایک مکمل طاقت رکھتی ہے جس کے انٹیلی جنس سورسز سمیت افرادی قوت و طاقت ہے کہ وہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔

18 آپریل کو اورماڑہ میں قابض فوج پر حملہ دشمن کی شکست ثابت ہوئی، براس نے جہاں جہاں حملے کئے ہیں وہاں دشمن گُمان تک نہیں کر سکا ہے اس لیے اب دشمن اپنے مختلف حیلے و بہانوں سے براس کو دنیا میں غلط نام دینے کی کوشش میں ہے چونکہ براس کا موقف پہلے سے ہی واضح ہے کہ دشمن جب تک بلوچستان سے بھاگ نہیں جاتا، اپنا بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے چلا نہیں جاتا اس کو اسی طرح ہی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بلوچ راجی آجوئی سنگر کے تینوں حملے پاکستانی فوجیوں کیلئے تباہی کے سبب بنے ہیں دشمن کی شکست واضح دیکھائی دے رہی ہے، اب بلوچ راجی آجوئی سنگر قوم کے دل میں بس چُکی ہے اور دشمن کیلئے یہاں سے بھاگنے کے سوا کچھ چارہ نہیں بچا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔