بلوچ ادیب و دانشور پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ کا خصوصی انٹرویو

دی بلوچستان پوسٹ انٹرویو

بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں سنہ 2003 سے پڑھا رہے ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔

آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ اسکے علاوہ آپکی اگلی کتاب ” براہوئی ادب پر تنقیدی جائزہ” جلد شائع ہورہا ہے۔ پروفیسرمنظور بلوچ نے اپنی پی ایچ ڈی تھیسسز ” براہوئی افسانوں پر رومانویت کے اثرات” میں مکمل کی، جو بہت جلد کتابی شکل میں شائع ہورہی ہے۔

منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔

پروفیسر منظور بلوچ کی براہوئی لٹریچر پر کام ہو، گدان کے عنون سے آپ کے بے باک کالم ہوں یا دلوں کو گرما دینے والی شاعری، آپ کو بلوچ عوامی حلقوں میں ایک ممتاز حیثیت بخشتی ہیں۔ بلوچ سیاسی حلقوں میں بھی آپکی رائے کو سنجیدگی اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ نے پروفیسر منظور بلوچ کے ساتھ بلوچی و براہوئی لٹریچر اور بلوچستان کی صورتحال کے موضوع پر گفتگو کی جو تحریری شکل میں شائع کی جارہی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: مزاحمت اور ادب کے تعلق کو آپ کیسے بیان کریں گے؟

منظور بلوچ: اگر ہم ادب کی تاریخ دیکھتے ہیں یا ادب کی بات کرتے ہیں، تو ہمارے سامنے دو باتیں آتی ہیں۔ ایک پرانی بحث ہے کہ ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی لیکن اس سے قطع نظر جو بھی لکھاری یا فنکار ہوتا ہے وہ بنیادی طور خود بھی نقاد ہوتا ہے۔ جب وہ سماج کی صورتحال کو دیکھتا ہے، زیادتیوں کو دیکھتا ہے، استحصال کو یا مختلف کرداروں کو دیکھتا ہے، تو بنیادی طور پر جب اس کی نگاہ تنقیدی نہیں ہوگی تو تخلیق نہیں کرسکے گا۔ گوکہ ہم نے بعد میں ادب کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا۔

میرے خیال میں اگر ہم بنیادی طور پر دیکھیں تو ادب ہے ہی مزاحمت، سماج کی مزاحمت۔ اگر نفسیاتی حوالے سے بھی کوئی بات کرتا ہے تو وہ سوسائٹی کے مسئلوں کو اجاگر کرتا ہے، سماج جن صورتحال سے گذرتی ہے، وہی چیزیں ادیب، تخلیق کار یا فنکار کو متاثر کرتی ہیں اور ان کی جو مطابقت ہے، وہ بنیادی طور پر اس خاص علاقے کے نسبت سے ہوگی۔ فرض کریں اگر ہم یورپ کی بات کرینگے تو یورپ میں آج ہمیں شاید اس طرح سے مزاحمت یا ادب کی ضرورت محسوس نہیں ہو کیونکہ ان کے حالات مختلف ہیں اور ہمارے حالات مختلف ہیں۔ اگر یہاں پر میں سارتر کی بات کروں تو سارتر کہتا ہے ہر بڑا ادب وہ ہے، جو ظلم کے خلاف لکھاگیا ہے۔ اگر ہم بلوچستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو ہم مزاحمت کی بات کرتے ہیں یا جو قومی مسائل ہیں، اس کے بیان کو مزاحمت کا نام دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ادب خود ہی مزاحمت ہے، جو مختلف شکلوں میں سوسائٹی کے مسائل کو بیان کرتی ہے لیکن ہر کسی کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے۔

ہم خود بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے جو بڑے لوگ ہیں یا جنہوں نے زندگی میں بڑے کام سر انجام دیئے، کسی نہ کسی طور سے ان کا بھی ادب سے تعلق رہا ہے۔ خود مارکس یہ کہتا ہے کہ میں نے جو معیشت کا علم سیکھا یا معیشت کے اسرار و رموز سیکھے، وہ کسی معیشت دان سے نہیں بلکہ ناول نگار سے سیکھے ہیں۔

میرے خیال میں ادب خود مزاحمت کا نام ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں اس کو الگ طور پر دیکھا جاتا ہے، نام دیا جاتا ہے۔ ابھی تک بلوچستان میں جو ادب ہے وہ بھی اپنے ان تمام لوازمات کو پورا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ادب اور مزاحمت ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں، اگر ادیب کی نگاہ ان چیزوں پر نہیں پڑتی ہے یا آپ کوئی ناول پڑھتے ہیں یا کوئی شاعری پڑھتے ہیں، اگر اس میں رومانویت بھی ہے تو رومانویت میں بھی آپ کو کوئی تنقید نظر آئے گا، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا معاشرتی سطح پر۔ میرے خیال میں مزاحمت ادب کا نام ہے اور ادب مزاحمت کا نام ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: مزاحمتی ادب کا اصطلاح اکثر استعمال ہوتا رہتا ہے، اس تعارف کے پیش نظر آپکی کیا رائے ہے کہ مزاحمت اپنی ایک ادب جنتا ہے، یا ادب ایک مزاحمت پیدا کردیتا ہے؟

منظور بلوچ: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ادب خود ایک مزاحمت ہے، ادب کو آپ جمالیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں یا آپ کسی بھی نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔ فرض کریں ہمارے پاس ادب نہیں ہوتا یا ہمارے پاس تخیل نہیں ہوتا تو آج دنیا اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوتی۔ ہم اب فوکلور( لوک کتاوں) کو لیتے ہیں، فوکلور میں جب انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا یا جب اس کے مسائل بہت زیادہ تھے، تو وہ ایک ارضی جنت کا خواب دیکھتا تھا۔ اس میں ایسے ہیرو پیش کیئے جاتے تھے جو بلآخر کامیاب ہوتے تھے، جو بڑے سے بڑے معرکے سرانجام دیتے تھے، جو عام زندگی میں آپ کو شاید نظر نہیں آئیں یا ہم جب فلم دیکھتے ہیں تو فلم میں بھی ہیرو آخر میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے، اس وقت لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ وہ مختلف کرداروں کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے، اس لیئے انہوں نے مختلف کردار تشکیل دیئے۔ کہیں ہم دیکھتے ہیں وہ اُڑن کھٹولے پر سفر کرتا ہے، کہیں وہ کوہ کاف جو ایک فرضی علاقہ ہے وہاں جاتا ہے، وہاں پر ایسی منظر کشی ہوتی ہے جو جنت کی طرح ہوتا ہے، جو باقی دنیا میں پایا نہیں جاتاہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں سائنس کی ترقی کو تو بنیادی طور پر تمام چیزیں، جیسے روبوٹ کا تصور، ڈرون کا تصور یا آج تجربے ہورہے ہیں کہ انسان کو غائب کیسے کیا جاسکتا ہے یاانسان ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک کیسے جاسکتا ہے یا ہوائی جہاز کا تصور ہے، تو میں سمجھتا ہوں یہ تمام تصورات ادب سے لیئے گئے ہیں، فوکلور سے لیئے گئے ہیں۔ آج ہم جس دنیا میں یا جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہاں اُڑن کھٹولا ہوائی جہاز کی شکل میں موجود ہے، ڈرون وہی سلیمانی انگوٹھی ہے یا اسم اعظم کا جو تصور ہے وہ آج ٹیکنالوجی کی صورت میں ہے۔ ٹیکنالوجی کی صورت میں دنیاؤں کی تسخیر کیا جارہا ہے۔ یہ تخیل ہے، یہ ادب ہی ہے جس نے آج لوگوں کو آئیڈیاز دیئے، ایک اچھی زندگی گذارنے کیلئے اور آج سائنس انہی آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے ایجادات کررہی ہے۔ ظاہر ہے پہلے آدمی سوچتا ہے اس کے بعد اسے ایک عرصے گذرجاتا ہے اور پھر وہ خیالات عملی و ٹھوس شکل اختیار کرنا شروع کرتے ہیں۔ ارسطو کے زمانے میں سوچا جاتا تھا کہ شاید اب انسان اپنے ترقی کے معراج تک پہنچ گیا ہے یا مختلف ادوار میں یہ سمجھا گیا کہ انسان کی ترقی کا یہی معراج ہے لیکن آج کے دور میں یا آج کے وقت میں سیکنڈوں میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کا معراج یا ترقی کا جو تصور ہے، وہ حتمی نہیں ہے۔ شاید آج سے 50سال بعد ہماری دنیا بالکل ہی مختلف ہو یا ہمارے لیئے اجنبی ہو، جیسے آج کی دنیا ہمارے آباواجداء کیلئے اجنبی ہے، تو آنے والا دور ہمارے لیئے اجنبی ہوگا۔

لٹریچر میرے خیال میں بنیادی وہ آگاہی ہے، جو تخیل کو طاقت دیتا ہے تخیل ہی ترقی یا ٹیکنالوجی کے راستے کھولتی ہے۔ ادب کا انسان کی ترقی، تفریح، انسان کے ذہن، سوچ میں بہت بڑا کردار ہے۔ اسی لیئے ہم کہتے ہیں کہ ادیب یا دانشور جو عوام میں ہوتے ہیں یا جو سیاسی لوگ ہوتے ہیں، ان کی نگاہ دور تک جاتی ہے، وہ آنے والے سو سالوں یا آنے والا وقت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ آپ جارج آرویل یا دوستوفسکی کو لے لیں، یا دوسرے بڑے ادیبوں کو دیکھ لیں، انکے زمانے میں انکی کہی باتیں شاید عجیب لگتی تھیں لیکن آج کے زمانے میں وہ عجیب باتیں نہیں ہیں۔ ادب تخیل ہی کو طاقت فراہم کرتا ہے، تخیل ہی کو بڑھاوا دیتا ہے اور جس حالت میں انسان زندگی گذارتا ہے، اسی حساب سے سوچتا ہے۔ اگر ایک شخص خشکاوہ(بارانی) علاقوں میں زمینداری کرتا ہے تو اس کی حکمت عملی اور طریقہ کار و خیال کچھ اور ہوگا، اگر وہ زرعی علاقے کا ہے تو اس کا سوچ اس کا فکر الگ ہوگا۔ جو ذرائع پیداوار ہیں وہ آپ کی سوچ کو، آپ کے طرز زندگی کو تبدیل کرتے ہیں۔ ادب ایسا ہی ہے آپ جس معاشرے میں رہتے ہیں، جس معاشرے سے آپ متاثر ہوتے ہیں، معاشرے کے جن مسائل پر آپ سلگتے ہیں، انہی کو ظاہر ہے فنکار بیان کرتا ہے، عام آدمی محسوس کرتا ہے لیکن بیان کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ ادب اپنی شکلیں بدل سکتا ہے لیکن ادب کی ضرورت کل بھی انسان کو تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔

دی بلوچستان پوسٹ: گذشتہ سات عشروں سے جاری بلوچ تحریک کیا کوئی ادب جنم دینے میں کامیاب رہا ہے؟

منظور بلوچ: اس کا جواب دینا شاید آسان نہ ہو۔ شاعری کی حد تک تو جو ہماری موضوعات ہیں، وہ کافی حد تک تبدیل ہوگئی ہیں۔ اب جو نوجوان شاعری کررہے ہیں، اس شاعری میں اس مزاحمت کے تکالیف کا، اور جو ہمارے ہیرو ہیں ان کی جھلک آپ کو واضح نظر آئے گی اور جو عام شاعر ہیں اس کو بیان کررہے ہیں لیکن ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نثر کی کمی ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان میں تاریخی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں، اس میں شاید غلامی کی بھی وجوہات ہوں کہ ہم کوئی بڑا ایسا ادب یا نثری ادب تشکیل نہیں دے سکے، لیکن بلوچستان کے جو حالات ہیں وہ بڑے ادب کیلئے زرخیز ہیں۔ مطلب اگر آپ ناول کی نگاہ سے دیکھیں، ناول کی گنجائش موجود ہے، بلوچستان کو تاریخ کے حوالے سے دیکھیں، بلوچستان کو شاعری کی نگاہ سے دیکھیں، فکشن کے نگاہ سے دیکھیں، آپ ہر نگاہ سے دیکھیں، بلوچستان بہت زرخیز ہے۔ ہمارے پاس کہانیاں ہیں۔ ہمارے پاس ایسی کہانیاں ہیں، جو حقیقت میں وجود رکھتی ہیں، لیکن اب اس سطح کے لوگ چاہئیں جو اس درد کو بیان کرسکیں۔ وہ ظلم، وہ درد تو موجود ہے لیکن شاید ہمارے پاس قلم نہیں ہے۔

آپ منٹو کی مثال لے لیں، منٹو نے اُن گرے پڑے لوگوں کی بات کی جنہیں معاشرہ مسترد کرتا ہے، دھتکارتا ہے۔ منٹو نے ان کو اپنا کردار بنایا اور ان کو انسانیت کے معراج تک پہنچایا۔ منٹو نے اس درد کو بیان کیا، آج بھی منٹو “جینیئنس” ہے، آج بھی اس پر بات ہوتی ہے اس پر فلمیں بنتی ہیں۔

میرا خیال ہے جب آپ کے حالات اس طرح کی ہوتی ہیں، تو اس میں ایک بڑے ادب کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اگر فلسطین محمود درویش کو جنم دے سکتا ہے، تو یہاں بھی گنجائش موجود ہے۔ لیکن ہمارے بہت سارے مسائل ہیں جس میں شاید ہمارے فنکاروں کی کوتھائیاں ہوسکتی ہیں، یایہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارا جو نظام ہے، ہمارے جو حالات ہیں، اس میں فکر کی آزادی نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں بلوچستان میں جو صورتحال ہے وہ ہر طرح سے ادب کے لیئے زرخیز ہے، ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس شاید کہنے کو کچھ نہیں رہا، وہ تھیوریز پر بات کرتے ہیں لیکن ہمارا کوئی ایسا گھر نہیں ہے جہاں کوئی آدمی متاثر نہ ہوا ہو۔ جن جن علاقوں میں جنگیں ہوتی ہیں، وہاں پر آپ کا انفراسٹرکچر متاثر ہوتا ہے، آپ کا تعلیم متاثر ہوتا ہے، آپ کا صحت متاثر ہوتا ہے، آپ کے جو کوڈ آف کنڈکٹ ہیں وہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ابھی کوئی ایسا رائٹر میری نظروں سے نہیں گذرا جو ان لوگوں کے دکھ درد کو بیان کرسکے، جو اس کیفیت سے گذررہے ہیں، ان کے احساسات کو بیان کرنے والے شاید ہمارے پاس اتنے دانا لکھاری سامنے نہیں آئے ہیں لیکن یہ جو صورتحال ہے اس میں ایک بہت بڑے ادب کی گنجائش موجود ہے۔

شاعری میں ہمیں بہت حد تک کام نظر آتا ہے اور اب بھی ہم دیکھیں جو ہمارا فوک شاعری ہے، اس کا حصہ داری آج بھی موجود ہے، اگر میں ’’نورا، نورا، حمزہ نا مارے‘‘ جانتا ہوں تو شاعری کی وجہ سے جانتا ہوں، کسی نثر نگار نے مجھے نہیں بتایا، اگر نوروز خان کو میں جانتا ہوں تو شاعری کے توسط سے جانتا ہوں، میر علی دوست کو جانتا ہوں تو شاعری کے توسط سے جانتا ہوں۔ وہ لوگ شاید جن کے پاس ڈگری نہیں ہیں یا جن کو ہم جاہل، ان پڑھ سمجھتے ہیں وہ تو اپنا کام کررہے ہیں، آج بھی پہاڑوں، میدانوں میں ایسے بہت سے شاعر ملینگے جو اپنے ہیروز کو، ان کے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو استحصالی گروہوں کا ساتھ دیتے ہیں، جو سماج کے خلاف جاتے ہیں، جو ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں ان کو بھی یہ بے نقاب کرتے ہیں۔ ہماری فوک شاعری یا جو بھی نام آپ اس کو دیں، عوامی شاعری یا آج جو نوجوان شاعری کررہے ہیں وہ 2000 سے پہلے کی شاعری سے بہت مختلف ہے۔ پہلے ہمارے یہاں جو شاعری ہوتی تھی وہ عامیانہ قسم کی رومانویت کی شاعری ہوتی تھی لیکن آج کی براہوئی شاعری کو میں دیکھتا ہوں وہ بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے، اس کے موضوعات تبدیل ہوچکے ہیں اور اگر آپ اس کی بنیاد پر دیکھیں تو شاید نثر میں آپ کو یہ صورتحال نہ ملے لیکن شاعری کو دیکھیں تو آنے والے وقتوں میں ہماری تاریخ بن سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نثر میں جو کام ہوسکتا ہے اس کی بہت کمی ہے اور ہمارے جو لکھنے والے ہیں مجھے نہیں پتہ کہ وہ اردو سے متاثر ہوتے ہیں یا دیگر ادب سے، وہ اپنے معاشرے سے کیوں متاثر نہیں ہورہے ہیں؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے لکھنے والوں اور سماج کے درمیان دوری ہے۔ لکھاری شاید اب تک اپنے سماج کو ڈھونڈ نہیں پایا ہے اپنے سماج کے ویلیوز یا اقدار کو وہ سمجھ نہیں سکا ہے یا جبر کی جو قوت ہے یا جن کے پاس اقتدار ہے، حکمران ہیں شاید ان کو خوش کرنے کے لیئے ہم لکھ رہے ہیں، اس وجہ سے جو ہمارے درست حالات ہیں یا جس تکلیف و درد سے ہم گذررہے ہیں اس کا حساب مجھے نثر میں کم از کم نظر نہیں آتا ہے لیکن شاعری بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: ہم عالمی تحاریک کا جائز لیتے ہیں تو ہمیں ان سے جڑے بہت بڑے ادیب و شاعر نظر آئیں گے، لیکن بلوچ معاشرے خاص طور پر موجودہ بلوچ تحریک میں ادیب و شاعروں کا کوئی قابلِ ذکر کردار نظر نہیں آتا، اسکی وجہ کیا ہے؟

منظور بلوچ: جس طرح میں نے پہلے کہا تھا، لکھنا یا فکشن لکھنا، تخلیق کرنا کوئی عام بات نہیں، ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کالونیل دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لکھاری تھے لیکن سب کو ہم منٹو نہیں کہہ سکتے ہیں، سب کو ہم راجندر سنگھ بیدی نہیں کہہ سکتے ہیں، اب اس کے لیئے اس قلم کی بھی ضرورت ہے۔ آپ دیکھیں کربلا کا جو واقعہ ہے، وہ صرف دس دن پر محیط تھا لیکن یہ دس دن جس کا موضوع ہی ایک ہے، میر انیس جیسے شاعر نے اتنے رنگوں میں بیان کیا ہے کہ کمال کیا ہے، لیکن ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ ہم سالوں سال، عشروں تک ایسے حالات میں رہتے ہیں لیکن ہمارے پاس شاید ایسے قلمکار پیدا نہیں ہوئے ہیں یا ن کے قلم میں وہ طاقت نہیں ہے یا پھر وہ مصلحتوں کا شکار ہیں۔ مطلب ہم اپنے درد کو بیان کرنے سے ابھی تک قاصر ہیں اور ہمارے جو لکھنے والے لوگ ہیں، عامیانہ چیزیں تو لکھتے ہیں، اب چیزیں اتنی تبدیل ہوچکی ہیں کہ جو باتیں ہم کرتیں ہے، جو باتیں ہمارا نام نہاد دانشور کرتا ہے، وہ تو ایک شُوان (چرواہا) بھی جانتا ہے، جو ایک دور دراز علاقے میں رہتا ہے، وہ بھی ان مسائل کو جانتا ہے۔ ایک ماں بھی جانتی ہے جس کا بیٹا دس سال سے غائب ہے۔ ایک ماں جس کا بیٹا غائب ہے، کیا ہمارے قلم میں وہ قوت ہے کہ اس کے درد کو بیان کرسکیں؟

ابھی تک ہم اپنے زبانوں کو بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ادب “پی۔ آر” کیلئے لکھا جاتا ہے، ایوارڈ کے لیئے لکھا جاتا ہے، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لکھا جاتا ہے، قصیدہ خوانی کا نام ادب نہیں ہے اور یہ بھی نہیں ہے کہ آپ کسی لکھاری کو ڈکٹیٹ کریں کہ آپ انقلاب یا سماجی حالات پر لکھیں، نہیں جو لکھاری یا فنکار ہے وہ متاثر ہوگا تو لکھے گا آیا ہم انسپائر نہیں ہورہے ہیں؟ تو آیا ہم بے حس لوگ ہیں یا اس درد کو بیان کرنے کے لیئے جس طرح سے “جینئیس” ہونے کی ضرورت ہے یا جس قلمکار کی ضرورت ہے شاید وہ صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے؟ ہمارے ادب کو اگر دنیا دیکھے تو وہ بالکل ایک اور تصویر بیان کررہی ہے، جس میں ہمارے کوئی مسئلے نہیں ہیں، جس میں اگر ہمارے مسئلے ہیں تو ذاتی ہیں، نفسیاتی یا اس طرح کے مسئلے جنہیں ہم نے فیشن بنالیا ہے، جو ہماری روایات یا کوڈ آف کنڈکٹ ہیں اس کو ہم ثابت کررہے ہیں کہ وہ جاہلانہ ہیں، گھٹیا ہیں یا بہت سارے ادارے جیسے سرداریت ہے، ان اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ میں کسی سردار کی حمایت یا وکالت نہیں کرنا چاہتا، اس وقت ہمارے جتنے بھی سردار ہیں وہ سارے سرکار کے ساتھ ہیں لیکن جو اپنے ادارے جو آپ کے اپنے سماج کے پیدا کردہ ہیں، آپ اسے گالی دیکر مسترد کرتے ہیں لیکن استعمار کے دیئے گئے استحصالی چیزوں کو بسروچشم قبول کرتے ہیں، یہ المیہ بھی ہے تضاد بھی ہے۔

میرے خیال میں بلوچ قوم یا ہمارے لکھنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے صحیح طور پر جو ہمارے لوگ ہیں، کردار ہیں، ان کو بیان کرنے کے بجائے یہ کوشش کی ہے کہ ایک خوفزدہ قوم پیدا کریں۔ ان کی اگر آپ ادب کو پڑھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ اپنے خوف کو، اپنے مصلحتوں کو معاشرے پر تھونپنا چاہتے ہیں اور ابھی تک المیہ یہ ہے کہ ہم ادب کے نام پر بہت کچھ لکھتے ہیں لیکن ہمارے پاس تنقید نہیں ہے۔ جب لکھاری، شاعر، تنقید کو برداشت نہیں کرسکتا تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بڑے ادب کے لیے راہ ہموار ہوسکی ہے؟ اس کے لیئے زبان کا بہتر ہونا، اس کے لیئے تہذیب کے جو مدارج ہیں ان کو طے کرنا ضروری ہوتا ہے اور پھر لکھنے کو بہت کچھ ہے اگر کسی میں لکھنے کا کمال ہو تو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ہمارے پاس بہت کچھ ہے، بہت ساری کہانیاں ہیں، بہت سارے کردار ہیں، وہاں ہندوستان میں ایک بھگت سنگھ ہے اس پر پی ایچ ڈی بھی ہوتی ہے، تھیوری بھی لکھی جاتی ہے، شاعری بھی ہوتی ہے، فلمیں بنتی ہیں۔ ہمارے گھروں میں تو کئی کئی بھگت سنگھ موجود ہیں لیکن نامعلوم ہیں۔ اس لیئے کہ ہمارے جو اپنے لوگ ہیں انہوں نے کھوج کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ان چیزوں کو شاید اپنے سے الگ تھلگ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ سماجی ادب کوئی اور چیز ہے، ادب تو ظاہر ہے آپ کی مٹی سے پھوٹتی ہے، آپ کے سماج سے وہ نکلتا ہے اور سماج کا جو ادب ہوتا ہے، وہ لوگوں کو اپنی جانب راغب بھی کرتا ہے اور وہ زندہ بھی رہتا ہے۔

میرے خیال میں ہم اس وقت ایک ایسے مرحلے میں ہیں، جہاں ہم مصنوعی ادب تخلیق کررہے ہیں۔ جس میں ہمارے جذبات، مسائل اور ہمارے حالات کا کماحقہ اظہار نہیں ہوپارہا ہے۔ اگرکوئی دانا و اعلیٰ پائے کا فنکار ہم میں جن لے تو اسے کہانیاں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، یہاں تو کہانیاں ہمارے پاس چل کر آتی ہیں لیکن وہ قلم جو میر انیس کے پاس تھا، جو قلم منٹو کے پاس تھا، وہ قلم جو انتظار حسین کے پاس تھا، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ آپ دیکھیں 1947 کے ہجرت اور فسادات کے بعد اردو ادب کا جتنا بھی لٹریچر ہے، وہ ہجرت اور فسادات سے متعلق ہے آج بھی اس پر وہ بات کرتے ہیں اور انتظار حسین کہتا ہے کہ میں افسانہ نگار نہیں ہوں، میں تو ایک عام آدمی ہوں جو اپنے ماضی کے گمشدہ لوگوں کو ڈھونڈتا ہوں لیکن ہم اپنے ماضی کو بھی فراموش کرررہے ہیں اور اگر یہی حال رہا تو جس طرح 70کی صورتحال رہی، 58اور 48 کی صورتحال رہی جس طرح اس کو بھلادیا گیا تو شاید یہ جو 20سال ہیں، اگر اس کو بھی ادب میں نہیں ڈھالا گیا تو شاید لوگ اس کو بھی بھول جائینگے اور وہ جو ہمارے بھگت سنگھ ہیں، وہ بھی شاید ہمیشہ کیلئے گمنام ہوجائیں گے، یہ المیہ اپنی جگہ موجود ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپکا شمار اعلیٰ پائے کے بلوچ ادیب و لکھاری کے طور پر ہوتا ہے، آپ نے لکھنے کا آغاز کیسے کیا؟

منظور بلوچ: میں کہاں اعلیٰ پائے کا دانشور ہوں۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے، نہ میں کوئی دانشور ہوں اور نہ اعلیٰ پائے کا لکھاری، بس درد ہے اس کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن یہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں یا نہیں۔ میں اس سے اختلاف کرونگا کہ میں کوئی دانشور ہوں، سچی بات یہ ہے کہ مجھے ابھی تک اپنے معاشرے کو سمجھنے میں شاید بہت عرصہ لگے، بہت وقت لگے میں اپنے معاشرے کی نفسیات کو جان سکوں، میں اپنے سوسائٹی کے لوگوں کو جان سکوں۔ صرف ایک بات ہے کہ ایک درد ہے، دل میں تکلیف ہوتی ہے، تو کچھ بول لیتا ہوں لیکن میرے خیال میں نہ لکھاری ہوں نہ بہت بڑا دانشور ہوں اور نہ میرا اتنا بڑا حصہ ہے۔ میں نے ایسا بڑا کام بھی نہیں کیا ہے اور نہ میرا کوئی ایسا کام مجھے نظر آتا ہے جو اس کیٹگری میں آتا ہو۔ ہم نے شاید اپنا جو حصہ ہے وہ بھی صحیح معنوں میں ادا نہیں کیا ہے، اب قوم کی مہربانی ہے کہ وہ ہمیں عزت سے نوازتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا احتساب ہونا چاہیئے، کہ ہم اپنا حصہ کیوں نہیں ڈال پارہے ہیں، ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں اور تاریخ اگر کبھی لکھی گئی تو شاید یہ بھی سامنے آئے کہ جب ہمارے لوگ اپنے بچوں کو قربان کرنے کیلئے پیش کررہے تھے تو ہمارے پروفیسر صاحبان گریڈوں پہ لڑرہے تھے، گریڈ الاؤنس وغیرہ کے چکروں میں پڑے ہوئے تھے۔ لگتا ہے کہ سماج کے مسائل سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، شاید وہ تعلق بھی ختم ہوگئی ہے۔ دانشوری تو بہت دور کی بات ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپکی نظر میں ابتک آپکی بہترین تخلیق کونسی رہی ہے؟

منظور بلوچ: میں تو ابھی تک مطمئن نہیں ہوں کہ تخلیق اس طرح کی کوئی کی ہے، کیونکہ اس کا فیصلہ تو وقت کریگا آیا میرا جو کام ہے وہ پچاس سال تک زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ کسی نے وزیر آغا سے پوچھا کہ فیض احمد فیض کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے کہا کہ دو سوسال کے بعد دیکھنا ہوگا، فیض کس مقام پر ہے کیونکہ جو بڑا ادب ہوتا ہے وہ لمبی عمر جیتا ہے۔ غالب شاید اپنے زمانے میں اس طرح دریافت نہیں ہوا، جیسے اب ہورہا ہے یا منٹو کو جس طرح لوگ اب پڑھ رہے ہیں جس طرح تفہیم ہورہی ہے، اسکے زمانے میں نہیں ہوسکی۔ جو بڑا لکھاری ہوتا ہے وہ ہر دور میں “ریلیوینسی” رکھتا ہے۔ غالب کا یہ خیال تھا کہ میری فارسی شاعری زیادہ بہتر رہے گی لیکن آج اس کی فارسی شاعری کے حوالے سے پہچان نہیں بلکہ اردو شاعری کے حوالے سے ان کی پہچان ہے۔ منٹو کو اپنے ڈرامون پر ناز تھا لیکن آج وہ اپنے افسانوں کی وجہ سے زیادہ مقبول ہے اور زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ میں تو نہیں سمجھتا ہوں کہ میں نے کوئی بڑی تخلیق کی ہے یا کوئی قابل ذکر کام کیا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپکو اگر ایک کتاب کا چناو کرنا ہو، تو آپ اپنی پسندیدہ ترین کتاب کسے قرار دینگے

منظور بلوچ: اس طرح تو بہت ساری کتابیں ہیں لیکن اگر مجھے ایک کتاب چننا ہو تو مجھے سب سے زیادہ پسند دوستوفسکی کی کتاب “کرائم اینڈ پنشمنٹ ہے”، جس کا ’’جرم اور سزا‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا گیا ہے، میں اس کا نام لوں گا۔

دی بلوچستان پوسٹ: دنیا بھر میں ادیب و شاعروں کی اکثر پہچان “اسٹیٹس کو” مخالف اور ترقی پسند رہی ہے، لیکن بلوچستان میں زیادہ تر ادیبوں کی صورتحال حکومتی وظیفوں اور ایوارڈز کے پیچھے نظر آتی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟

منظور بلوچ: اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم یہ جو لکھتے ہیں، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جی ہم عوام کے لیئے لکھتے ہیں، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم زبان کی خدمت کرتے ہیں۔ ان دونوں باتوں سے مجھے اختلاف ہے، آدمی تو اپنے لیئے لکھتا ہے۔ اگر وہ انسپائر ہوتا ہے تب لکھتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں اخبار بینی پر پابندی تھی، ابھی تک براہوئی میں 2019 میں ہمارے پاس نا کوئی روزنامہ ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی ایسا میگزین ہے جس میں خالصتاً ادب کے حوالے سے لکھا جاتا ہو۔ دوسری بات یہ ہے ہمارے پاس مارکیٹ نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں ہے۔ جو لکھتے ہیں، آپ کی بات درست ہے صحافی ہو یا لکھاری ہو، وہ بنیادی طور پر اسٹیٹسکو مخالف ہوتا ہے لیکن یہاں عجیب بات ہے کہ ہم اسٹیٹسکو کے حق میں لکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں اگر ضیاء الحق کا زمانہ ہوتا ہے تو ہمارے لوگ نعت اور حمد لکھتے ہیں، اگر بےنظیر کا زمانہ آتا ہے تو جمہوریت پسند بن جاتے ہیں، اگر نوازشریف کا زمانہ آتا ہے تو پھر وہ روایت پسند بن جاتے ہیں، مشرف کا زمانہ آتا ہے تو لبرل بن جاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لکھاری یا تخلیق کار کا اپنا کوئی اپروچ نہیں ہے، وہ یہی سمجھتا ہے کہ چار الفاظ لکھنے سے کسی کو میں خوش کرونگا یا کوئی ایوارڈ یا کریڈٹ مل جائے گا، کسی اخبار میں تصویر آجائے گی، ٹیلی ویژن پر مجھے پروگرام ملینگے یا اسلام آباد میں مجھے کسی پروگرام میں بلایا جائیگا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہیں پڑھا تھا کہ فرانس میں جب بادشاہت کا زمانہ تھا تو ایک ادیب و لکھاری کو کہا گیا کہ ہم آپ کو ایوارڈ دینا چاہتے ہیں، تو اس نے جواب میں ایک لمبا چوڑا خط لکھا بادشاہ کو کہ آپ کون ہوتے ہیں ادب کا فیصلہ کرنے والے، آپ کیا جانتے ہیں ادب کے حوالے سے، حکومت کیا جانتی ہے، اسی طرح سیکریٹریٹ میں بیٹا سیکشن آفیسر کیا جانتا ہے کہ ادب کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ تو عوام کرتا ہے یا جو جاننے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ ایک سیکشن آفیسر آپ کو ریکمنڈ کرتا ہے اور آپ خوش ہیں کہ میں ایوارڈ یافتہ ہوں، لیکن اس کے نتیجے میں ہم ابھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ سارے لوگ اس اسٹیٹسکو کے لوگ ہیں جو پی آر کیلئے لکھتے ہیں، جو نام کیلئے لکھتے ہیں، جو کسی کو خوش کرنے کیلئے لکھتے ہیں۔ آج آپ ان کی حالت دیکھیں کہ وہ منقسم یا اجنبی شخصیات ہیں، وہ اس معاشرے کیلئے اجنبی ہیں، معاشرہ ان کی زبان نہیں جانتا، نہ معاشرہ ان کو پڑھنا چاہتا ہے اور جن کے لیئے یہ لوگ لکھتے ہیں یا جن کیلئے سارا وقت صرف کرتے ہیں کہ جی ہم ان کے گُڈ بکس میں آئیں، لیکن وہ حکمران طبقہ وہاں پر بھی ان کو شامل نہیں کرتا ہے، تو اس طرح کے یہ جو لکھنے والے لوگ ہیں وقتی طور پر چند مراعات اور مفادات سمیٹ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد گوشہ گمنامی کا شکار ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو چالیس چالیس کتابیں لکھتے ہیں لیکن آج ان کو کوئی نہیں جانتا ہے، بہت سارے ایسے زندہ ادیب و شاعر ہیں جو آج موجود ہیں لیکن سوسائٹی ان کو نہیں جانتی ہے، سوسائٹی کیلئے اجنبی ہیں۔ جب آپ عوام کے نبض پر ہاتھ رکھینگے، تب آپ اس کے ہیرو یا لکھاری بنیں گے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا فنکار عوام سے بہت دور ہے، عوام سے اس نے ناطہ توڑدیا ہے، اس نے محلات سے، طاقت کے ایوانوں سے تعلق رکھنے کی کوشش کی، اب اگر وہ پلٹ کر عوام میں آنا چاہے تو اجنبی ہے۔ عوام اسے قبول نہیں کریگی اس کے مقابلے میں وہ فوک شاعری زیادہ دلوں کو گرماتی ہے جو ان کے خمیر سے اٹھتی ہے۔

ہمارے یہاں بہت ساری مثالیں ہیں، خصوصاً ہمارے موسیقی سے تعلق رکھنے والے لوگ جنہوں نے بی ایس او کے بلوچی دیوانوں سے نام کمایا، آج آپ ان کو دیکھیں، وہ اپنے نام کی خاطر، اپنے مفاد کی خاطر حکمران طبقات کے درباریوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب عوام میں ان کی پذیرائی موجود نہیں ہے۔ عوام نے ان کو عزت دی، ان کو نام دیا لیکن انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر رشتہ، تعلق کہیں اور جوڑا اس لیئے ہمارے پاس ابھی حوالے کیلئے لوگوں کے نام موجود نہیں ہیں یا اس طرح کے “جینئیس” لوگوں میں ہمارے پاس لے دے کر عطاء شاد کا نام باقی رہتا ہے یا اس وقت اگر زندوں میں جس کی پذیرائی موجود ہے وہ مبارک قاضی ہے اور اس طرح کی مثالیں نہیں ملتی ہیں کہ جو شاعر یا فنکار آئے اور عوام میں اس کی پذیرائی ہو، یہ المیہ ہے لیکن شاید ہمارے لوگوں نے عوام سے ناطہ جوڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور میرے خیال میں جب وہ عوام کی طرف لوٹیں گے تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

دی بلوچستان پوسٹ: آپ بلوچستان میں جاری نسل کشی و جنگ کے بارے میں کھلم کھلا لب کشائی کرتے نظر آتے ہیں، آپکو کیا لگتا ہے بلوچستان کے ان حالات نے بطور ادیب و شاعر آپ پر کتنا اثر رکھا ہے؟

منظور بلوچ: ظاہر ہے، جس طرح سے میری سوچ تھی، جو آج میں ہوں، شاید جوکل میں سوچتا تھا آج میں نہیں سوچتا ہوں اور اثرات تو ظاہر ہے ہوتے ہیں، نا انصافی، ظلم، زیادتیوں نے ہمارے شخصیت کو متاثر کیا ہے اور جو بھی میرے خیال میں کوئی سوچنے والا انسان ہے یا تھوڑی بہت اس میں انسانیت کی رمق ہے اس پر اثرات تو ہونگے اور وہ اثر مختلف صورتوں میں موجود ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر اثرات نہیں ہیں، وہ اثرات موجود ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم زیادہ گھٹن کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے ہیں، معاشرے میں عدم برداشت یا حکمران طبقات کے جو ہتھکنڈے ہیں اس کی وجہ سے ہم ایک کھلے ذہن کے ساتھ یا ایک کھلے ماحول میں زندگی گذارنہیں رہے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک بہت بڑے جیل خانے میں زندگی گذار رہے ہیں، جہاں آپ کی اپنی مرضی نہیں ہے، جہاں آپ کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہے، جہاں آپ اپنا اظہار نہیں کرسکتے ہیں۔ جب آپ اپنا اظہار نہیں کرسکتے ہیں تو گھٹن کا شکار ہوتے ہیں، تو ہم گھٹن زدہ لوگ ہیں اور ہم جیسے گھٹن زدہ لوگوں سے اتنے توقعات وابسطہ کرنا بھی مجھے عجیب لگتا ہے۔ ہم اپنے جس گھٹن کا شکار ہیں، اس کا ہم اظہار نہیں کرپارہے ہیں۔ ظاہر ہے جب آدمی اظہار نہیں کرپاتا تو وہ پھر بہت سارے مسائل کا شکار ہوتا ہے، ذہنی خلفشار کا شکار ہوتا ہے، روحانی طور پر اس کو شکست و ریخت ہوتی ہے۔ ہم ابھی ٹوٹے ہوئے لوگ ہیں، ہم صرف اپنے درد کو بھی صحیح طریقے سے بیان نہیں کر پارہے ہیں، میرے خیال میں ہم میں وہ سکت بھی باقی نہیں رہی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: ہم پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان میں دیکھتے ہیں کہ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو ریاستی اداروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے، اس صورتحال میں کیا کبھی آپ کو اپنے تحفظ کیلئے خدشات پیش آئے؟

منظور بلوچ: بہت ساری باتیں ہیں میں نہیں چاہتا کہ وہ بیان کروں، اس لیئے کہ میری، انفرادی شخص کی کیا حیثیت ہے۔ لوگوں نے اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں کہ اس کے سامنے ہماری تکالیف بہت چھوٹی ہیں، ان کو بیان کرنا میرے خیال میں زیب نہیں دیتا ہے، ہاں! البتہ یہ مجھے تکلیف ضرور ہوتی ہے کہ جب بھی ہم نے اظہار کیا ہے تو دشمنوں سے زیادہ اپنوں کا رویہ تکلیف دہ رہا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک مختلف مدوجزر سے گذرتے ہوئے جاری و ساری ہے، کیا آپ اس تحریک کو ایک کامیاب ہوتے تحریک کی صورت میں دیکھتے ہیں؟

منظور بلوچ: تحریکوں کی کامیابی کے بہت سارے عوامل ہوتے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ آپ کا معاشرہ کس سطح پر ہے، آپ کی لیڈر شپ میں کتنی توانائی موجود ہے، کتنا ویژن ہے، پھر آپ کے جغرافیائی حالات، جو آج کی بدلتی ہوئی دنیا ہے، آج کی دنیا دانش کی دنیا ہے، آج کی دنیا کے مختلف رنگ و روپ ہیں۔ آج سرمایہ دار جس شکل میں موجود ہے یا ان کے جو مفادات ہیں، اگر اس حوالے سے دیکھیں تو بہت لمبی چوڑی بحث ہوگی جو ایک انٹرویو یاسوال میں سمٹ نہیں سکتا لیکن جب میں ایک جانب اپنے معاشرے کو دیکھتا ہوں یا ہمارے جو برائے نام پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کی موقع پرستی دیکھتا ہوں، ان کے کرپشن کو دیکھتا ہوں، پھر دوسری جانب قربانی کا وہ عظیم منظر دیکھتا ہوں، تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ یہ معاشرہ جس کے پڑھے لکھے لوگ جو اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا سے کیا کہتے ہیں، ان کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے اور جب ہم قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ قوم بہت سارے مسائل کا شکار ہے، جو اذیت میں بھی ہے، جنہیں تعلیم بھی نہیں ہے، جس کے پاس مارکیٹ بھی نہیں، میڈیا بھی نہیں ہے، بہت سارے لوازمات نہیں ہیں۔ اس میں وہ قربانی، وہ جدوجہد، خود ایک بہت بڑا استعارہ ہے اور یہ صرف میرے لیئے حیرانگی کی بات نہیں بلکہ سارے لوگوں کے لیئے حیرانگی کی بات ہے کہ بلوچوں میں ایک جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ سارے سردار سرکار کے ساتھ ہیں، دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے خاندانوں کا، اپنے مستقبل کا کسی کی پرواہ کیئے بغیر خون دے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایک مرحلہ ہو آگے چل کر یہ کیا شکل اختیار کرلیتا ہے، اس کیلئے کن چیزوں کی ضرورت ہے وہ منحصر کرتا ہے کہ جو لیڈرشپ ہے اس کا ویژن کیا ہے۔

ہمارے یہاں ساری چیزیں مسنگ ہیں، ایک المیہ یہ ہے کہ آپ پارلیمنٹ میں جائیں بس نالی وغیرہ کی بات کریں، دوسری جانب مزاحمت ہے جسے آپ مسلح جدوجہد کہتے ہیں لیکن درمیان میں بہت ساری چیزیں مسنگ ہیں، سرفیس کی پالیٹکس ہے، اچھی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے، وہ ہمیں مسنگ نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس لٹریچر موجود نہیں ہے، ہمارے پاس ہمارا جو موجودہ تاریخ ہے وہ موجود نہیں ہے۔ جو ہماری لیڈر شپ ہے ان کے بارے میں ہمارے پاس معلومات نہیں ہے، کتنے لوگ ہیں جو میر عبدالعزیز کرد کو جانتے ہیں؟ نواب خیربخش و نواب بگٹی جو ہم عصر ہیں ان کے بائیوگرافیز ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ بہت ساری چیزیں مسنگ ہیں، جن پر بحث کی ضرورت ہے لیکن مجھے ایسی بحث ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے، جب ہم تنقید کرتے ہیں تو ہم ایسی تنقید کرتے ہیں کہ جو سمجھ میں نہیں آتی ہے یا تو ہم ہر چیز کو آنکھیں بند کرکے مانتے ہیں یا پھر ہر چیز سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس پر بحث ہونی چاہیئے کہ قومی تحریکوں کی جوناکامیاں ہیں، اس پر بھی بات ہونی چاہیے، داخلی مسائل پر بھی بات ہونی چاہیئے اس وقت تو ہم صرف خارجی باتیں کررہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا جائے ہمارے جو داخلی مسائل ہیں، ان پر کیا ہماری سوسائٹی اس پوزیشن میں ہے کہ اس سچ کو سہہ سکے؟ میرے خیال میں وہ مرحلہ ابھی تک نہیں آیا ہے کہ ہم آزادانہ طور پر گفتگو کرسکیں، اپنے اندر کے خامی، جو ہمارے داخلی مسائل ہیں، ان پر گفتگو کرسکیں یا ہمیں بحیثیت قوم بقا کے جو مشکلات ہیں اس کے لیئے کیا کیا ٹولز استعمال کرنے ہیں۔ بہت ساری چیزیں ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ تحریک آپسی اختلافات، نا اتفاقی، ریاستی جبر، بے سروسامانی وغیرہ کی وجہ سے کبھی بحران کا شکار بھی نظر آتا رہتا ہے، ان مسائل اور انکے حل پر کیا آپ کوئی رائے رکھتے ہیں؟

منظور بلوچ: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ویژن جب تک واضح نہیں ہوگا مسائل رہیں گے، اگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آپ صرف اس لیئے لڑرہے ہیں کہ آپ کے پاس اختیار آجائے یا آپ کے پاس طاقت آجائے اور کل آپ کا سماج پھر مشکلات میں رہے پھر سوال یہ ہے کہ ایسے جدوجہد کا کیا فائدہ؟ کیا ہماری لیڈرشپ واقعتاً جانتی ہے کہ ان کا اصل ہدف کیا ہے؟ کیا ان کی ذات ہے، کیا وہ نام کیلئے کررہے ہیں یا وہ اختیار اور اقتدار کی شراکت داری کے لیئے کررہے ہیں یا کھلے اختیار کا مالک ہونا چاہتے ہیں؟ یہ تمام چیزیں، یہ سوال حل طلب ہیں اور اگر آپ پارلیمانی سیاست سے لیکر قومی جدوجہد تک دیکھیں، اس میں ہمیں پڑھے لکھے لوگوں کی جو واقعتاً ایک المیہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے لوگ بھی کم ہے، ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ آپ جس بھی تحریک میں جائیں اس میں آپ کو بڑے لوگ بھی ملینگے، اب ظاہر ہے جو دانشور ہے، وہ بندوق تو نہیں اٹھا سکتا لیکن اس کا دانش کام آتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر ہم دیکھتے ہیں، لینن کی مثال ہے، بہت سے دوسرے لیڈروں کی کہ وہ اخبار بھی نکالتے تھے، کتاب بھی لکھتے تھے، کتاب پڑھتے تھے، تقریر بھی کرتے تھے، رائے عامہ بھی ہموار کرتے تھے۔ اب ہمارے پاس اس حوالے سے دیکھیں ایک دو مثالوں کے سوا ہمارے پاس اتنے پڑھے لکھے لوگ کہاں ہیں کہ جو ان نظریاتی باریکیوں کو سمجھیں۔

میرے خیال میں ہمیں ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو ویژنری ہو، جو جانتا ہو، اگر ہمارے پاس انفرادی سطح پر نہیں تو کم از کم کیا اجتماعی طور پر ایسے ادارے ہیں جو ایسے لوگ پیدا کرسکے یا ان کو مواقع ملیں جو کم از کم اپنی سوسائٹی یا اپنی شناخت کی بات کرسکیں۔ یہ تمام چیزیں ہمیں نظر نہیں آتی ہیں، ایک آدھ ہمارے پاس اگر کوئی بندہ آبھی جاتا ہے، اگر وہ سچی بات کہتا ہے، تو ہمارے لیئے قابل برداشت نہیں ہوتا ہے، اس کی مثال صورت خان مری ہے۔ میرے خیال میں بلوچوں میں اگر کوئی دانشور ہے تو صورت خان مری ہے، باقی شاید میں نہیں جانتا ہوں، میری معلومات کم ہے۔ صورت خان مری کو آپ دانشور کہہ سکتے ہیں لیکن آج اس کی حالت بھی آپ کے سامنے ہے کہ اگر وہ کوئی بات اپنے تناظر میں کہتا ہے تو اس کے خلاف کردار کش مہم بھی دیکھی گئی اور آج وہ گوشہ گمنامی کی زندگی بسر کررہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بڑے لوگوں کو برداشت بھی نہیں کرپاتے ہیں، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ نواب خیربخش مری پر تنقید کرنے والے وہی لوگ تھے، میرے خیال میں ان کی وجہ سے جن کا نام بنا۔ وہ بھی بعد میں نواب خیر بخش مری پر اوٹ پٹانگ قسم کی تنقید کررہے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا اگر کوئی دو دن کسی سیاسی عمل میں حصہ رہتا ہے، کسی احتجاج میں رہتا ہے یا کسی تحریک کا حصہ بنتا ہے، وہ اپنے آپ کو دانشور سمجھنے لگتا ہے۔ کیا ہر آدمی دانشور ہوسکتا ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے اور جو بقاء کی جنگ ہے وہ تو اصل میں دماغوں کی جنگ ہے، وہ تو ذہن کی جنگ ہے، وہ تو علم کا جنگ ہے، کیا ہم اس سطح پر ہیں کہ جو علمی یا نفسیاتی جنگ ہے اس میں مقابلہ کرسکیں؟ لیکن اس میں جو قربانیاں ہیں اس کو بھی آپ “مائنس” نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس جدوجہد کی وجہ سے جو اسپیس ملا ہے، ہم اس اسپیس سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں، نہ ہمارے پارلیمانی پارٹیوں میں اتنی صلاحیت موجود ہے نہ ہمارے نام نہاد پڑھے لکھوں میں وہ صلاحیت ہے، نہ ہمارے نام نہاد دانشوروں میں کہ ہم اس اسپیس سے فائدہ اٹھاکر قوم کو کچھ ڈلیور کرتے۔

دی بلوچستان پوسٹ: ہم گذشتہ ایک دہائی کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو بلوچستان میں طلباء سیاست پر غیر اعلانیہ قدغن اور کریک ڈاون نظر آتا ہے، طلباء سیاست کی اہمیت آپکی نظر میں کیا ہے اور موجودہ حالات میں یہ کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے؟

منظور بلوچ: طلباء ہی توہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں، ان میں ساری توانائیاں ہوتی ہے، وہ اس وقت بہت سی چیزوں سے آزاد بھی ہوتے ہیں، اس کے بہت سارے مصلحتیں بھی نہیں ہوتیں، اس کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ بہت سے معاشروں میں انہوں نے اپنے سوسائٹی کو تبدیل کیا ہے۔ اب یہاں پر بی ایس او کے نام پرشکست و ریخت ہوتی ہے، اس میں خارجی عوامل سے زیادہ داخلی عوامل بھی کار فرمارہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان داخلی عوامل پر بات کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے نوجوانوں کو اس پلیٹ فارم سے جو فائدہ اٹھانا تھا یا جو ان کا کردار ہوناتھا کیا وہ کردار ہم ان سے لے پائے ہیں؟

ظاہر ہے جب آپ اپنی بات کرینگے جب آپ کولونیل سسٹم میں جدوجہد کرینگے، تو تکالیف بھی ہونگے، کریک ڈاؤن بھی ہونگے لیکن یہ نہیں کہ راستے بند ہوتے ہیں، راستے بہت ہوتے ہیں، ڈائمنشنز بھی بہت ہوتے ہیں، کام کے طریقے بدل جاتے ہیں۔ لوگ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ جو زار روس تھا، کیا اس نے خود آکر دعوت دی تھی کہ آپ میرا تختہ الٹیں، میرے اقتدار کو لے لیں؟ لیکن لوگ منظم ہوئے، لوگوں کو منظم کیا گیا، اخبار لٹریچر کے ذریعے یہاں تک اگر آپ ہندوستان میں دیکھیں1857 کی جنگ آزادی یا غدرجو بھی آپ نام دیں، وہ بھی بنیادی طور پر جوگلی محلوں میں تھیٹر ہوتاتھا، وہاں سے لوگوں کو جگایا گیا، وہاں سے آگاہی پھیلی، اب ہمارے پاس کیا ہے؟ ہمارے پاس نا تھیٹر ہے نا سینما ہے، ہمارے پاس نہ میوزک ہے، فلم تو بہت دور کی چیز ہے۔ ہم نے زبان، کلچر، ان چیزوں کی جو اہمیت ہے اس کو بھی ابھی تک محسوس نہیں کیا۔ ظاہر ہے آپ کی جوبنیادی نیشنلزم ہے وہ زبان ہے، زبان ترقی یافتہ ہوگی تو آپ کا کلچر بھی مظبوط ہوگا، آپ کے نیشنلزم کی بنیادیں بھی مظبوط ہونگی لیکن یہاں پر زبان کو کس نے اہمیت دی ہے اور کس نے زبان پر اس سطح پر کام کرنے کی کوشش کی ہے کہ براہوئی و بلوچی جو ہماری زبانیں ہیں وہ ترقی یافتہ زبانیں بن سکیں۔ اس پر ہم نے ایسے کونسے نعرے بنائے کہ ان کو ترقی کی شکل دے سکیں؟ میرے خیال میں ہم ابھی تک اپنے روایات، اپنے کلچر، اپنے زبان کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ہمارا ورثہ ہے، سینہ بہ سینہ آتا رہا ہے وہ زبانی ہے، ہماری جو تاریخ ہے، وہ روایات زبانی ہیں لیکن ہم اس کو قلم بند بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو لکھنے والے ہیں وہ باہر کے لوگ ہیں، جنہوں نے ہمارے رسم ورواج پہ لکھا، انہوں نے ہماری نیشلزم بھی لکھا، ہم نے اب تک کوئی ایسی چیز خود تخلیق نہیں کی اور جو سب سے بڑانقصان ہے، جو مجھے اس وقت نظر آرہاہے کہ جو ہمارا فوکلور ہے، جو ہمارے روایات ہیں، اس کو ہم محفوظ ہی نہیں کر پارہے ہیں۔ ہمارا اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا کہ آپ کی زبانیں ختم ہونے کے قریب آرہی ہیں، آپ کی “وکیبلری” نہیں ہے، آپ کا جو فوکلور ہے وہ محفوظ نہیں ہے، ہم قدیم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسے داستان یا قصے ہیں جو فوک کہانیاں ہیں، وہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ یہاں تک کے ہماری شاعری ابھی تک جمع نہیں ہے، ہم نے کام کب کیا ہے؟ تھوڑا بہت ہمارا جو ابتدائی زمانہ ہے، کچھ چیزوں کو سمجھ رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر اس سطع تک ہماری سوچ نہیں گئی کہ ہم سوچ سکیں، ایک آدھ کے استثنیٰ کے سوا کہ جنہوں نے ہمیں ویژن دی۔

کیا ہم میں وہ احساس ہے، کیا حساسیت موجود ہے، کیا ہم زبانوں کی اہمیت کو نیشنلزم میں جگہ دینے کو تیار ہیں؟ کیا ہمارے پاس کوئی اخبار موجود ہے، کیا ہمارے پاس انگریزی کا کوئی اخبار، کوئی رسالہ موجود ہے کہ جو دوسری دنیا تک ہماری آواز پہنچائے؟ ہمارے پاس اخبار تک موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس کتابیں کتنی ہیں جو ہمارے اپنے لوگوں کے لکھی ہیں؟ میں کہتا ہوں ہر ایک سوال ایک بڑے بحث کا متقاضی ہے، جس پر ایک نشست میں بہت ساری باتیں نہیں ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں سوچنا ہے کہ ہمیں تعلیم کی بھی ضرورت ہے، ہمیں ان سب سے زیادہ انسانی وسائل کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے کلچر کو بچانے کی ضرورت ہے، اپنے زبانوں کو بچانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس بدقسمتی ہے کہ ادارے موجود نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ابھی تک ہمارا اپنا سکول نہیں ہے۔ کوئی اکیڈمی تک نہیں ہے، آپ کے پاس سائنس میں کتنے لوگ ہیں؟ آپ نے کتنے سائنسدان پیدا کیئے ہیں؟ ان تمام چیزوں پر سوچنے، غور کرنے کی ضرورت ہے، شاید وقت کے ساتھ ساتھ احساس پیدا ہو لیکن آپ جس سست روی کا شکار ہیں اس سے خطرہ یہ ہے کہ جب تک آپ اس حساسیت کے سطح کو پہنچ پائے ایسا نہ ہو کہ آپ کا سب کچھ چھن جائے، آپ کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے۔ سب سے زیادہ تشویش یہی ہے کہ شاید ہمارے زبان کی بہت ساری چیزیں گم ہوجائیں، ہمارا کلچر و شناخت ختم ہوجائے اور شاید ہم ڈیمو گرافی کے حوالے سے بھی اپنی سرزمین پر ریڈ انڈین بنیں۔ ہم اس وقت کثیرالجہتی مسائل اور بحران کا شکار ہیں اور جس سطح کا بحران ہے، اس سطح کی ہمیں لیڈروں کی، اس سطح کی ہمیں ٹیچروں کی، اس سطح کی ہمیں دانشوروں کی اور اس سطح کی تخلیق کاروں کی بھی ضرورت ہے جو شاید مجھے نظر نہیں آرہا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچستان میں جس طرح قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں اور لیڈروں کا اغواء و قتل کا سلسلہ جاری ہے، کیا آپ کو پرامن سرفیس سیاست کیلئے کوئی جگہ و موقع نظر آتا ہے یا پھر واحد راستہ مزاحمت کا بچا ہے؟

منظور بلوچ: سیاسی عمل میرے خیال میں ختم ہو چکا ہے، سیاسی عمل مفلوج ہو چکا ہے اور اس میں میں سمجھتا ہوں ہمارے اپنے لوگوں نے جو کردار ادا کیا پارلیمان کے نام پر، انہوں نے سب سے زیادہ ان چیزوں کو نقصان پہنچایا۔ اگر وہ جو بلوچوں کی بات کریگا، جو بلوچ کی آزادی کی بات کریگا، اسکے لیئے تو گنجائش موجود ہی نہیں ہے لیکن جو لوگ پارلیمنٹ میں جارہے ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے؟ وہ بھی تو کوئی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں، وہ بھی کوئی بات کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وقت تو پورا عمل، سیاست سے لا تعلقی بڑھارہی ہے، سیاسی عمل ختم ہوتاجارہا ہے۔ اسٹوڈنٹس کی سیاست ختم ہوچکی ہے، پارٹیوں کی سیاست ختم ہوچکی ہے اور بکول انور ساجدی کے یہ سیاسی پارٹی نہیں ہیں، یہ تو اپن جی اوز ہیں یہاں جو بھی آتا ہے، یہاں پر نام نہاد جمہوریت ہے اس میں وہ چار یا پانچ کروڑ انویسٹ کرتا ہے، پھر وہ ظاہر ہے یہ سوچتا ہے کہ اسے واپس کیسے کماؤں۔ اس سیاسی عمل نے، اس پارلیمانی طرز سیاست نے ہمارے لوگوں کو بکھاری بنادیا ہے، ووٹ کے نام پر ہم لوگوں میں خیرات بخشتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی عمل اس سطح پر رکا ہوا ہے اور ہمارے جو پارلیمانی لوگ جو بلوچ نیشنلزم کا نام لیکر سیاست کررہے ہیں، ان کا اپنا کردار ختم ہوچکا ہے، لوگوں کے پاس متبادل بھی نہیں ہے، جس دن بھی لوگوں کے پاس متبادل آگیا تو جو سیاسی جماعتیں اس وقت موجود ہیں، جن کو آپ این جی او کہہ دیں، یہ زندہ نہیں رہ پائیں گے اور دوسرا اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ظاہر ہے معاشرہ متحرک ہے، وہ تبدیل ہوتی رہیگی تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل سکے، اس چیز کے امکانات ہیں کےعوام میں کوئی ایسا ابھار پیدا ہو یا کوئی ایسی لیڈر شپ پیدا ہو جو آگے بڑھ کر چیلنج کرے اور جو اس وقت اسٹیٹس کو حامی لوگ ہیں یا پارٹیاں ہیں ان کو بھی یہ خطرہ ہے کہ عوام میں سے کوئی تحریک اٹھ سکتی ہے، جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔