ایک خط تُمہارے نام – شادین شاد

189

ایک خط تُمہارے نام

دی بلوچستان پوسٹ

بہت لکهنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر میرا وجود میرا ساتھ نہیں دیتا۔ میں خود سے اتنا الجھا ہوں کہ تمہاری یاد تک بھی نہیں آتی۔ یہ مت سوچو کہ مجھے تجھ سے محبت نہیں، محبت تو بہت ہے لیکن ہمّت نہیں کہ تجھ کو کیسے بتادوں۔

مجھ سے زیادہ تم بھی جس سے محبت کرتے ہو، میں بھی اس سے اتنا ہی محبت کرتا ہوں، بس فرق یہی ہے کہ تم اُس کے لیئے لڑ رہے ہو اور میں کچھ بھی نہیں چند لفظوں کے سوا۔ تم جس کے لیئے لڑ رہےھو، جس کا ہرمقام خون سے لبریز ہے، جس کی ہر ” مات” اپنے بیٹوں کی انتظار میں پاگل ہے، کہ کب میرے آنکھوں کے دید واپس لوٹیں گیں۔ جس کی ہر بہن اپنی بھائی سے بچھڑ جاتی ہے۔

میں تم سے کہہ رہا تھا کہ میں بہت کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر میرا وجود میرا ساتھ نہیں دیتا۔
تُمہیں اِک بات بتاوں؟
میرا وجود بہت ڈرتا ہے آجکل
جانتے ہو کیوں؟
” یہی کہ کوئی آکر مجھے لاپتہ نہ کردے “

کیونکہ میرا اب کوئی نہیں، نہ کوئی ہمسایہ، نہ کوئی دوست۔ سب پرائے ہیں میرے لیئے۔ جب تمہیں پہلے مرتبہ دیکھا تو ایسا لگا کہ تم ہمارے اپنے ہو، اور جب تم نے ماما قدیر اور ڈاکٹر اللہ نِذر کے بارے میں مجھ سے باتیں کی، تو مجھے ایسا لگا کہ تمہاری آنکھوں میں بھی کوئی بے بسی ہے۔

جو میں نے دیکھا وہ سچ ہی تو تھا، جس نے تمہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا۔ جب رفتہ رفتہ ہماری دوستی محبت میں بدل گئی، تو میں نے سوچا کہ آپ کو بتادوں مگر ہمّت ہی نہیں ہوئی۔

آج سے ایک سال قبل تم نے جو باتیں کی وہ اب تک بھی مجھے یاد ہیں، اور اب تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیاہے، کہ تم پہاڑوں میں گئے ہو۔ اپنے بھائیوں کے پاس۔

اب اگر میرا وجود بھی مجھ سے لاپتہ ھوجائے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ تم مجھ کو نہ ملے بلکہ مجھے تو خوشی ہوئی کہ تم ایک زالبول بھی پہاڑوں میں اپنوں کے لیئے لڑ رہے ہو۔ اگر کوئی کہے کہ یہ محض کتابی باتیں ہیں تو وہ تاریخ کے پنّوں میں جھوٹا ثابت ہوگا۔

میں نے تم کو محض کہانیوں میں نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی دیکھا ہے ۔ باتیں تو بہت ہیں مگر لکھ نہیں سکتا کیونکہ میرا بساط اُتنا نہیں کہ تمہارا توصیف کرسکوں، مگر میں یہ نہیں کہونگا کہ یہ میرا آخری خط ہے۔ اگر میرا وجود لاپتہ نہ ہوا تو وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ” سُہریں ھون” کے عنوان سے کچھ لکھونگا۔

الوداع

تمہارا خیر خواہ
شادین شاد

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔