اب کے بہار – سنگت گزین بلوچ

285

اب کے بہار

تحریر: سنگت گزین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اپریل کا مہینہ ہے، اس سال بلوچستان میں گولیوں و بموں کے ساتھ بارشیں بھی خوب برسیں، مکران ساجی سے لیکر نودگوار بولان تک سرزمین بلوچستان میں موسم_ بہار اپنے عروج پر ہے۔ موسم بہار اپنے ساتھ کئی رنگ، کئی جلوے اور تلخ یادیں ساتھ لاتی ہے۔

شے مریدوں کی سرزمین بلوچستان بہار میں ایک منفرد سماں پیش کرتا ہے ایک مخلص وطن دوست کی نظر میں بلوچستان کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔ وطن کی ہواوں میں شہیدوں کے لہو کی مہک ہر سمت پھیلی ہوئی ہے، گلزمین پہ آئی بہار شہیدوں کے لہو کی آبیاری ہے۔ شہیدوں کے مقدس لہو کے قطرے جو گلزمیں کے مٹی پر گرے ہیں آج وہی مٹی وہی زمیں پر ہتم گواڑغ اور سبزہ اگ آہی ہیں۔ جو اس بات کی گواہی ہیں کہ ہمارے شہید سنگت حیات ہیں۔ وطن کی ہواوں، مٹی میں، وہ فضا میں تحلیل ہیں، بادلوں کی صورت میں زندہ ہین اور یہی بادل بارش کے قطروں کی صورت میں گلزمین کو سیراب کر جاتے ہیں اور ان سے بہار اگ آتے ہیں۔

آج میں نیند سے سویرے ہی جاگ گیا، نیند نہیں آرہی تھی اور صبح بس ہونے کو ہی تھا میں اپنا بندوق اور جاٹا اٹھائے وتاخ سے کچھ دور ایک پہاڑ کے دامن میں جا کر بیٹھ گیا، سرد ہوا چل رہی تھی، چاند اپنے رونقوں کے ساتھ اپنا سفر پورا کرکے مغرب کی جانب ڈھل چکا تھا۔ مگر اس کی رونق اب بھی برقرار تھی، مشرق کے سمت سےسورج کی کرنیں روشنی کی نوید لیئے ابھر رہی تھیں اور درختوں پر پرندوں کے پراطمینان آواز نے صبح ہونے کی اطلاع دی۔

مین اس وقت فطرت اور بلوچستان کو بہت قریب سے دیکھتا رہا جیسے مین فطرت کے رنگوں میں گھل مل گیا ہوں، گلزمیں کی مہر تمام محبتوں پہ غالب (dominant) رہتا ہے
میں بیشتر اوقات گلزمین بلوچستان سے ہمکلامی کرتے ہوئے تخیل میں چلا جاتا ہوں، گواڑخ کے نازک پھولوں پر تتلیوں کو دیکھ کر اکثر مجھے اپنے بچھڑے مہروان سنگت یاد آتے ہیں۔ میں نے ان سے کیا کچھ نہیں سیکھا ہے، وطن گلزمیں، جدوجہد، نظریہ، مہر، سب انہی سے سیکھاہے۔ جب بھی ملتے تو ہمارا موضوع بلوچستان’ بلوچستان کی زیبائ اور بلوچستان کے شہید ہوتے ہیں۔ ہم نے بےشمار وعدے کئے کہ پورا بلوچستان ایک ساتھ گھومینگے۔ ان کے بغیر سب کچھ ادھوار ہے مگر جدوجہد اور تحریک آزادی کے تقاضے ہی یہی قربانی ہیں۔ نہ صرف اپنے ذاتی رشتوں اور زندگی سے بلکہ نظریاتی دوست بھی اس راستے میں بچھڑ جاتے ہیں۔

جب ہمارا نظریہ ایک ہو مقصد ایک ہو تو نظریاتی دوستوں کی جدائی تکلیف دہ ضرور ہوتی ہے مگر انکا نظریہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے یعنی وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں پھر وہ اپنے وجود کا حصہ بنتے ہیں، جب تک ہم ہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔