کیا مثبت رویے ہمارے لئے زھر ہیں؟ – عبدالواجد بلوچ

565

کیا مثبت رویے ہمارے لئے زھر ہیں؟

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زھر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند
مخلص سیاسی کارکنوں، تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور تاریخ دانوں کا ایک سنجیدہ طبقہ ایک طویل عرصے سے اِس بات کی نشاندہی کرتا آرہا ہے کہ موروثی سیاست و پسند نا پسندانہ رویہ بلوچ جہد کے لیے کیا ثمرات لائی ہیں؟ یا پھردوسری طرف بلوچ سیاست پرمنفی اثرات مرتب کرنے میں یہی رویے کس حد تک ذمہ دار ہیں؟

میرے خیال میں اگر ہمارے سیاست میں موروثیت و پسند نا پسندانہ سوچ کا عمل دخل نہ ہوتا تو شاید آج ہمارے مابین اس طرح تقسیم در تقسیم نہ ہوتی، ہمارے طرزِ عمل میں کیوں جمہوریت کبھی نہیں پنپ سکتی؟ اس رویے نے قومی سیاست اور بلوچ تحریک کے موجودہ Phase پر منفی اثرات مرتب کیئے ہیں، ہم کیوں اس جانب نہیں سوچتے؟ المیہ یہی ہے کہ ہمارے درمیان اتحاد و الائنس کے نعرے فقط دوسرے مخالف قوت کو نیچا دکھانے کی نیت سے بنائے جاتے ہیں، نا کہ قومی تحریک کی موجودہ Demand کی خاطر.

ان رویوں کی شدت سے بلوچ سیاست پر منفی اثرات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تھم جانے کا نام نہیں لیتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے درمیان رسہ کشی کا کھیل کھیل رہے ہیں، نا کہ قومی وژن کا پرچار کررہے ہیں اور نا ہی قومی تحریک کے اس موجودہ ڈگر پر مثبت تنقید برائے اصلاح پر اپنا مدلل و منطقی دلیل کے پیش نظر Debate کرنے کو تیار ہیں. ان رویوں کی وجہ سے ہم اس نہج پر پہنچے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ قومی تحریک کے نام پر ایک مرتبہ پھر وہی سوچ ابھر کر سامنے آرہی ہے، جو کئی دہائیوں پہلے قومی تحریک کا سودہ کرکے یہی تاویل پیش کرتے تھے کہ ہم میں یہ سکت نہیں کہ اس تحریک کو آگے بڑھائیں۔ ادارتی حوالے سے Back کرنے کا عمل پھر سے حاوی ہورہا ہے جو کہ نقصان و تباہی کے سوا ہمیں کچھ نہیں دیتا۔ بلوچ قومی تحریک کے اندر کیوں صحیح معنوں میں قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی؟ اِسی بنا پر جو لوگ اس عظیم سیاست پر منتخب ہو کر آئے ہیں، وہ ایسی پالیسیاں چلاتے ہیں جو کہ لوگوں کے مفاد میں نہیں بلکہ اُن سیاسی پارٹیوں یا شخصیات کے مفاد میں ہوتی ہے، جِن کی وہ نمائندگی کررہے ہوتے ہیں. ہمارے ہاں ہمیشہ ایک ایسا سوچ حاوی رہا ہے کہ جنہوں نے خالص قومی تحریک کے بارے میں مضبوط پالیسیاں نہیں بنائیں بلکہ ہمیشہ جس حصار میں تھے اسی حصار کا پرچار کیا اور اپنے اس دائرے کو ہی قومی تحریک سمجھتے رہے اور رہے ہیں۔

ہم اس جانب کیوں نہیں سوچتے؟ اُس فرق کو کیوں نہیں سمجھتے کہ “قومی تحریک” اور پارٹیز میں زمین آسمان فرق ہے؟ قومی تحریک اس مجموعے کا نام ہے جس کے لئے میدان میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز یا پارٹیز اپنا حصہ دیتےہیں نا کہ وہ پارٹیز از خود اپنے آپ کو مجموعی تحریک گردانیں ہمارے ہاں المیہ ہی یہ ہے کہ سیاسی میدان ہو یا مسلح جھد سب نے یہی رویہ اپنایا کہ ہم از خود تحریک ہیں اور کوئی ہم سے اختلاف رکھے، وہ تحریک دشمن ہے، وہ غدار ہے، وہ مشکوک ہے. ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ رویہ ہمیں صرف اور صرف تباہی و بربادی کی طرف لیجائے گا نا کہ اس سے ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔ ہمیں اس فرق کو واضح کرنا ہوگا کہ “قومی تحریک” اور پارٹیوں میں فرق ہے اور اس فرق کا پرچار آج وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ان لوگوں کے لیئے جنہیں پارٹیوں اور شخصیات سے زیادہ قومی تحریک عزیز ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا قانون رائج نہیں جس سے اس معتبرانہ سوچ کا خاتمہ ممکن ہو، سیاسی حوالے سے آج ایسے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، جو ان رویوں کا قلعہ قمع کرے، جس سے تقسیم در تقسیم کے روش پر مکمل پابندی لگائی جاسکے. ایسا قطعاً نا ہو کہ لوگ آئیں تحریک کے ساتھ مزاق کرتے جائیں اور تاویلیں دیں اور چلے جائیں اور نا ہی اس بات کو مزید برداشت کیا جانا چاہیئے کہ ہر کوئی آئے اپنے تئیں اپنے آپ کو عقل کل اور اپنے پارٹی کو قومی تحریک کا شہہ رگ قرار دے اور دوسروں کو متنازعہ کرکے انہیں تحریک سے خارج کرنے کا رویہ اپنائے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔