کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

199

مشکے سے لاپتہ کیئے جانیوالے والے خواتین کے لواحقین  بھی احتجاج میں شامل

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج 3530ویں روز جاری رہا، جبکہ مشکے سے لاپتہ کیئے جانے والے خواتین سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونیوالے افراد کے لواحقین احتجاج میں شریک ہوئے اور اس موقعے پر سول سوسائٹی سے وابسطہ حمیدہ نور ، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل اور کارکنان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین  سے اظہار یکجہتی کی۔

بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل مشکے سے لاپتہ ہونیوالے خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون زیبا بلوچ نے میڈیا  کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ نورملک، بہن حسینہ اور ثمینہ کو دس سالہ بھائی ضمیر کے ہمراہ پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاہے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر کے خواتین کو لاپتہ کرنے کے بعد بھی ہمیں دھمکیاں دی گئی اور ہمارے مال مویشی کو لوٹ لیا گیا۔ انہوں نے کہا ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا قصور کیا ہے اور ہمیں کیوں اس طرح سزا دی جارہی ہے۔

واضح رہے 55 سالہ خاتون نور ملک زوجہ اللہ بخش اور انکی دو جوانسال صاحبزادیاں 22 سالہ حسینہ زوجہ اسحاق اور 18 سالہ ثمینہ ولد اللہ بخش ہیں۔ یہ اس گھر سے اغواء ہونے والے پہلے افراد نہیں بلکہ 3 جولائی کو نور ملک کے 10 سالہ بیٹے ضمیر ولد اللہ بخش کو فورسز اٹھا کر لے گئے تھے، جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے۔ 10 سالہ بچے کے یوں اغواء پر اسکی ماں اور بہنیں اپیلیں کررہی تھی اور ان کی بازیابی کی کوشش کر رہی تھی کہ اسی دوران  انہیں بھی اغواء کیا گیا۔

لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں موجود حمیدہ نور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہابلوچستان میں پہلے مردوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا جاتا تھا اور اب خواتین کو بھی لاپتہ کیا جارہا ہے۔ مشکے سے تین خواتین کو دس سالہ بچے کے ہمراہ لاپتہ کیا گیا ہے لہٰذا میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ دس سالہ بچے اور خواتین کا کیا قصور تھاانہیں ایک سال سے زندان میں ڈالا گیا ہے۔ یہ افراد اگر مجرم ہے تو عدالتیں موجود ہے انہیں وہاں پیش کیا جائے اور وہ مجرم بھی ہے تو انہیں کن قوانین کے تحت اغواء نما گرفتاریوں کا شکار بنایا گیا ہے۔

حمیدہ نور نے کہا کہ میں تمام ارباب اختیار افراد سمیت فیمینزم کے دعویداروں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ ان مسئلوں پر کیوں خاموش ہے، کیا بلوچستان کے خواتین‘ خواتین میں شمار نہیں ہوتے ہیں یا یہ خواتین کے درجے پر نہیں آتی ہے یا آپ کی نظر میں بلوچستان میں رہنے والے افراد انسان ہی نہیں ہے، لہٰذا بلوچستان سمیت پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے بات کرنیوالے اپنا وژن وسیع کرے اور مظلوم طبقات کیلئے بھی بات کرے۔

لاپتہ رفیق بلوچ کی بہن نے کہا کہ رفیق بلوچ کو 15نومبر 2017کو ان کے تین ساتھیوں ثناء بلوچ، نصیر بلوچ اور حسام بلوچ کے ہمراہ کراچی سے فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ انہوں نے کہا رفیق بلوچ کے ہمراہ لاپتہ ہونیوالے افراد بازیاب ہوگئے لیکن رفیق بلوچ تاحال لاپتہ ہے۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری لانگ مارچ اور بھوک ہڑتال انسانیت کو زندہ رکھنے کیلئے ہیں جس کی ہر شخص کو اخلاقی حمایت کرنی چاہیئے۔ تنظمیں یا پارٹیاں بناکر پیسے کمانا انسانیت کی خدمت نہیں ہے بھوک ہڑتال پر بیٹھنا اور لانگ مارچ کرکے تکالیف اور خطرات کا مقابلہ کرنے کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا ہے کہ آج بلوچ کس لیے مررہے ہیں، انہیں کون اور کیوں ماررہا ہے۔ بلوچوں کیلئے انسانی حقوق کی تنظیمیں شاید اب بھی اپنی خاموشی نہیں تھوڑے لیکن ہم نے دنیا کے مہذب ملکوں اور انسانوں کو جگانے اور آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ کے لواحقین نے اپنے پیاروں کے گمشدگی کے حوالے تفصیلات سے آگاہ کیا اور ان کے بازیابی کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا گیا کہ ہمارے پیاروں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت سزا دی جائے ۔