کوئٹہ: لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج جاری

156

لاپتہ عبدالفتاح بنگلزئی کی والدہ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئی – وی بی ایم پی

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3522 دن مکمل ہوگئے۔ سماجی کارکنان بیبرگ بلوچ، حوران بلوچ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنے نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے سفاکیت، درندگی کی ہر حد کو پار کرسکتی ہے۔ بلوچستان پر تسلط برقرار رکھنے کی اپنی عدم دلیل کے باعث پاکستانی حکمران دہشت پھیلانے والی ریاستی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا مظاہرہ براہ راست فوجی کاروائیوں کے علاوہ روزانہ بلوچ سیاسی کارکنان، طلبہ، نوجوانوں، ڈاکٹروں، صحافیوں اور دانشوروں سمیت بلوچ سماج کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاستی اداروں کے ذریعے اٹھاکر لیجانے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں بلوچستان میں ریاستی کردار اپنی تضاداتی بنیادوں کے عین مطابق ریاست کی اس تعریف پر پورا اترتا ہوا نظر آتا ہے جس میں وہ بالادست قوم یا طبقے کے مفادات کی چوکیدار اور اس کے ہاتھ میں قومی طبقاتی جبر کو دبائے رکھنے کا طاقتور اوزار کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ ریاستی فورسز کو محب وطن، فرض شناس، اہماندار اور بلوچ قوم کے انتہائی ہمدرد اور خیر خواہ کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں جہاں شعوری طور پر حقائق کو مسخ کرتے ہوئے مضحکہ خیز مبالغہ آرائی کی گئی ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس قسم کے کرداروں میں محکوم قوم کی اپنی سرزمین سے محبت اور پرامن جدوجہد کو غداری اور نوآبادیاتی ریاست کی اطاعت کو محب وطنی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 30 اپریل 2015 کو حب چوکی سے لاپتہ کیئے گئے وسیم ولد عبدالرحمن، فروری 2012 کو حب سے کراچی جاتے ہوئے لاپتہ ہونے والے عبدالرشید ولد کریم داد، 28 جولائی 2018 کو لاپتہ ہونیوالے صاحب داد ولد قادر بخش سکنہ نصیر آباد، 28 جولائی 2018 کو لاپتہ ہونے والے گل محمد ولد قیصر سکنہ نصیر آباد کے کوائف درج کرکے کیس صوبائی حکومت کے پاس جمع کرادی گئی ہے۔

وی بی ایم پی کی جانب سے کہا گیا ہے مئی 2014 کو اسپلنجی سے لاپتہ کیئے گئے عبدالفتاح بنگلزئی ولد رسول بخش کی والدہ بیٹے کی جدائی کا غم برداشت نہ کر سکی اور وہ گذشتہ روز حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئی۔

یاد رہے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے کئی افراد بازیاب ہوگئے ہیں لیکن دوسری جانب مختلف علاقوں سے کئی افراد جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے ہیں جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونیوالے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں سے بہت کم تعداد میں لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔