منتشر بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی – زہیر بلوچ

268

منتشر بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی

تحریر: زہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے بلوچ کونسل میں چند شاہین جس طرح کی فسطائیت زدہ روئیوں کو لیکر مسائل کو سُلجھانے کے بجائے اُلجھاتے جارہے ہیں، میں انہیں پھر سے باور کرادوں کہ اسے بلوچیت کا نام دینے کے بجائے مردانگی کے ہی زمرے میں دیکھا جائیگا۔ کیونکہ چیئرمین کا یہ فیصلہ جس کے تحت سمی رشید بلوچ کو وائس چئرپرسن منتخب کیا گیا۔ اس فیصلے کے بنا پر چیئرمین کو نااہل قرار دینا، دراصل ہمارے تنگ نظر قبائلی سماج کی ازل سے اِس عورت دُشمنی کو ثابت کررہی ہے۔

قریب ایک ماہ قبل کونسل میں قلات کے ایک ممبر کے ساتھ کیبینٹ کی میٹنگ میں نظم و ضبط کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے وائس چئرمین نے حنان نامی شخص کے ساتھ جو رویہ روا رکھا، اُسے کسی صورت سراہا نہیں جاسکتا۔ اسی سلسلے میں کونسل کے بیشتر لڑکوں نے استعفیٰ دیا تھا کہ وائس چیئرمین کے خلاف کاروائی کی جائے اور کونسل کی آئین کے مطابق اسکی رکنیت معطل کی جائے۔ اب جب چیئرمین نے کاروائی کی اور بڑے خوبصورت اور واضح پوزیشن کے ساتھ اس لڑائی کو اختتام تک پہنچانے کی کوشش کی، جس کے بعد کونسل پہلی بار بیٹھک سے گھر بنے۔ جہاں کاؤنسل کی تاریخ میں پہلی دفعہ خواتین کو ریپریزنٹیشن کا موقع ملا، تو دوسری طرف بدستور نصیرآباد کے ہمارے شاہین (جنکی ووٹ سے عامر چیئرمین بنا) وہ اب عامر کے اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں۔ چونکہ انہوں نے عامر کو ووٹ دیا ہے اور جس وائس چیئرمین نے غلطی کی اسکی اُسے سزا ملی ہے، اسے نصیرآباد ڈویژن علاقائی تعصب کی عینک لگا کر پھر سے بلوچ اتحاد پر قدغن لگانے پر بضد ہیں۔ اس لیئے اگر چیئرمین کا فیصلہ انُکے خلاف آیا تو وہ اُسے نااہل قرار دینے کی ضد میں جان محمد جمالی کے علاقائی سیاست کا ماڈل استعمال کررہے ہیں۔ یاد رکھیں یہ نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ سماج کی غلیظ سیاست ہرگز نہیں جہاں ووٹ کے نام پر آپ بلیک میلینگ کرسکیں بلکہ کسی ایسے پلیٹ فارم کے رونما ہونے والے مسائل کی ہے جسے ہوا دینے کے بجائے سمجھوتے سے نمٹا جاسکتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی حد تک عامر بلوچ کے ڈیرہ جات سے ہونے پر اُسے لسانی اور علاقائی تعصب کا سامنا ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

یاد رہے کہ بلوچ طلباء جو پاکستان کے بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے گئے ہیں، انہوں نے کونسلز کے نام پر اپنے اپنے یونینز بنائے رکھے ہیں تاکہ بلوچ نوجوانوں کو بلا تفریق متحد کرکے انکے اکیڈمک مسائل کو حل کیا جاسکے۔ کونسل کو یکسر غیر سیاسی یونین کے طور پر چلائے جانے اور پکنک کلب تک محدود رہنے پر اکثر تنقید کا سامنا رہا ہے، مگر اتحاد برقرار رہنے کی وجہ کونسل کی بہت سی خامیوں کو درگزر بھی کیا گیا ہے۔ مگر اب جا کر جذباتی اتحاد کا بکھرنا شروع ہو چکا ہے، جس سے ماضی کی تنقید سچ ثابت ہو رہی ہے کہ قوم کے نام پر جذباتی اتحاد کے بجائے اگر نظریاتی رشتے بھی استوار کیئے جاتے تو آج ایک انتہا سے دوسری انتہا یعنی قومی اتحاد سے علاقائی ٹکڑوں تک بٹنا نا پڑتا۔ بہرحال نوجوان قیادت کو حالات و ضروریات کا درست ادراک کرتے ہوئے اب بھی سوچ بچار کے ساتھ راہیں استوار کرنے کا موقع میسر ہے کہ وہ دور اندیشی کے ساتھ مفاہمت و سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ناتواں قوتوں کو مزید بکھرنے سے بچا لیں۔ کیونکہ باقی تمام جامعات کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں بھی بلوچ نوجوانوں کو درپیش مسائل بہت سنگین ہو چکے ہیں۔ ماضی کی سو سے زائد نشستوں کو کاٹ کر آدھے تک کم کیا گیا ہے۔ داخلے کے عمل کو پیچیدہ بنا کر روڑے اٹکائے جا چکے ہیں۔ آئے روز جمیعت جیسی غنڈہ تنظیم کے ذریعے مسائل و رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ پر امن علمی و فکری ماحول کے اندر خلل پیدا کیا جا رہا ہے جن کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جانا چاہیئے بجائے پسند نا پسند و علاقہ پرستی کی فرسودہ سیاست کے۔

ڈر ہے کہ اگر اسی طرح علاقہ پرستی، برادری، قبیلہ پرستی، لسانیت کو پروان چڑھایا جاتا رہا تو کونسل اب شاید سراوان، جھالاوان، مکران اور کوہ سلیمان میں تقسیم ہوکر رہ جائے۔ جس سے ہمیشہ کی طرح آخری تجزیے میں نقصان بلوچ قوم کو ہی ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔