عالمی ادارے زاہد بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کردار ادا کریں – ماما قدیر بلوچ

320

قومی سیاست کو بلوچستان میں شجر ممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ جب تنظیمی کاموں کے سلسلے میں کوئٹہ میں موجود تھے تو پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 18مارچ 2014کو انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیاجس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی ایس او آزاد کے مرکزی رہنماؤں کامریڈ شفیع، کامریڈ قیوم، کمبر چاکر، رضا جہانگیر اور درجنوں کارکنان کو شہید کیا گیا اس کے علاوہ سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ، چیئرمین زاہد بلوچ سمیت متعدد کارکنان تاحال پاکستانی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم سہہ رہے ہیں جبکہ یہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ روزانہ کی بنیاد پر بلوچ طلباء اور سیاسی کارکنان کو اغواء نما گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ماما قدیر نے کہا ہے کہ پاکستان نے یہاں ترقی پسند نظریات کے حامل جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے اور قومی سیاست کو بلوچستان میں شجر ممنوعہ قرار دیا گیا ہے اسی وجہ علم و شعور کے تمام ذرائع کوبے دردی سے روندا جارہا ہے جن میں سیاسی نظریات کے حامل کتابوں کو ضبط کرنا اور تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنیوں میں بدلنا شامل ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کومحض اس لیے جبری طور پر لاپتہ کرکے پابند سلاسل کیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنے سماجی ترقی کے حوالے سے آگاہی، تاریخ شناسی،قومی شناخت کے عمل سے دور رہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین زاہد بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال، پریس کانفرنس سمیت ریلیاں نکالی گئی اور مظاہرے کیئے گئے لیکن ان کی گمشدگی کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت تمام انسان دوست ممالک سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ زاہد بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔