شخصی آزادی – پندران زہری

411

شخصی آزادی

تحریر: پندران زہری

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں بے شمار لوگ رہتےہیں، ہر شخص اپنی اپنی مختلف صلاحیتیں لےکرپیدا ہوتا ہے، وہی صلاحیت اس کی پہچان ہوتی ہے۔ عام طور پر اسی صلاحیت کی وجہ سے اسے لوگ پہچانتے ہیں، وہ اپنےاس صلاحیت کی وجہ سے دنیامیں کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے، اگر پوری دنیا کے لیئے نہیں تو وہ عام لوگوں کےلیےایک مثال بن جاتا ہے، اپنے مقصد کے لیے محنت و خواری کی آخری حد تک جا پہنچتا ہے، وہ بعد میں اپنے مقصد میں شہرت حاصل کر پاتا ہے۔

آزادی کے دو پہلو ہیں، ایک شخصی آزادی اور دوسرا فکری آزادی۔ شخصی آزادی؛ جس میں ایک شخص اپنے ہر عمل کو اختیار کرنے میں کسی کا پابندنہ ہو، اپنی مرضی کا مالک ہو۔ فکری آزادی؛ کسی عمل کے اختیار کرنے کے ارادے میں بھی آزاد ہو یعنی کسی عمل کے اختیار کرنے میں کسی اور کی تقلید نہ کرنے اور کسی غیر قوم یا فرد کی رَوش کو اپنی راہ نہ سمجھے۔

جہاں تک میراتجربہ اور میرے نظروں کے سامنےسے گذرنے کے بعد کی بات کروں، تو میں نے بہت سے جگہوں پر دیکھا ہے، سنا ہےکہ اس معاشرے میں چھوٹے اور بڑے کا فرق یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ امیر اور غریب کا فرق ضرور محسوس کیا ہے، ویسے تو اس کا مثال عام طور پر ایک خاندان کے اندر یہ فرق بڑے اچھے انداز میں ملیگا، وہاں پر ایسا ہوگا کہ بڑے اپنے چھوٹوں پر حاوی دیکھنے کو ملیں گے، چھوٹوں کو ہر بات کو ہر حال میں ماننا پڑیگا کیونکہ اس سے چھوٹا کچھ دن بعد پیدا ہوا ہے اس لیئے، حالانکہ انسان دوسرے انسان کےبرابر ہوتا ہے، اصل میں وہ ہمارے نفسیات پر انحصار کرتاہے، جو ہم سے اگر کچھ دن چھوٹا ہوجائے یا ہم کسی کام پر ہوں تو ہمارے ذہن میں وہ ہمیشہ چھوٹا یا جونیئر ہی رہتا ہے، چاہے وہ اسی کام میں ہم سے بھی اچھی طرح کام کریں، بس ہمارے نظروں میں ہم سے کم ہے۔

بہت سے ایسے کم سوچ والے انسان بھی ہوتے ہیں، جو اس کی کامیابی کو ناکامی کی طرف دکھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، مختلف قسم کے اس پر دباو ڈالا جاتا ہے یا اس کے لیئے رکاوٹیں، پیدا کی جاتی ہیں۔ اس (junior)جونیر یا اپنے سے کچھ دن چھوٹے پر بڑوں کی دہشت یا دباو کی وجہ سے وہ اپنے عظیم مقصد سے مجبور ہو کر ہٹ جاتا ہے اور اپنے بڑوں کےنقش قدم پرچلتاہے، وہی دوسروں کے کہنے پر چلتا ہے، چاہےوہ صیح ہو یا غلط ہو ایک انسان دوسرے انسان کو برداشت کر سکتاہے مگر کچھ مدت کے لیئے، نہ عمر بھر کے لیئے اور اگر اس کی برداشت زیادہ ہوجائے تو جہاں تک میرا خیال ہے وہ ضرور نفسیاتی مریض ہوجائیگا۔

اگروہ برداشت نہ کریں، تو اس کے لیےایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے باغی ہونا، اب باغی ہونا ایک چڑیا کے مثل ہوتا ہے، آپ اگر ایک چڑیا کو اس کےپنجرے میں کئی سال بند کردو، جب وہ ایک دفعہ پنجرے سے باہر نکلا واپسی نا ممکن ہے، اسی طرح جب انسان دوسرےانسان سے آذاد ہو، واپسی نا ممکن ہے کیونکہ اب وہ ایک آزادچڑیاکے مثال جو من میں چاہےوہ کرسکتاہے، جہاں جائے جا سکتا ہے، جو کرے کر سکتا ہے، بعد میں اسے پتا نہیں چلتا کہ میں غلط راستے پر ہوں یا صحیح، اس کے لیئے زندگی وہاں سے شروع ہوتا ہے، اپنی مرضی ومنشا سے چلتا ہے، اب اس کے لیئے رکاوٹ کچھ بھی نہیں۔

اگر دیکھا جائے دنیا کا کوئی بھی انقلابی پارٹی یا تنظیم اپنے مقصد کے لیئے شخصی آذادی کا پیمانہ مقرر کرتےہوئے، اپنی کامیابی کی طرف گامزن ہوتاہے کیونکہ ایک شخص کو اس کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق چھوڑ دیا جائے تو میں کہتاہوں اس کے لیئے دنیا کا کوئی بھی کام اس کے لیئے مشکل نہیں ہوسکتا، جو کہ اس کوپہلے سے تجربہ ہوا ہے بشرطیکہ اس کو اس کی مرضی و منشاء پر چھوڑ دیا جائے اور اس کو وقت کم نہ دیاجائے کیونکہ انقلابی کام کو جتنا زیادہ وقت لگے اور جتنا چھوٹا کام ہو، بس مسلسل چلتا رہنا چایئے، اپنی اور اپنے آرگنایزیشن کی شناخت کو برقرار رکھے، جب اسے وقت اور موقع ملیگا تب وہ اپنے طریقہ کار کو اپنا کر مو قع سے فائدہ اٹھا سکے گا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔