تعلیم اور آواران – لطیف سخی

222

تعلیم اور آواران

تحریر: لطیف سخی

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے اندر تعلیم ہی وہ نعمت ہے جو کسی ملک، قوم، علاقے، یا معاشرے میں ترقی اور شعور لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے بغیر دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک پر جائزہ لیں تو وہاں کی ترقی میں بنیادی جز تعلیم رہا ہے۔ تعلیم سے قومیں ترقی کرسکتی ہیں، زیور سے نہیں۔

تعلیم انسان کو انسانیت کا سلیقہ سکھانے اور شعور دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مسائل کو سائنسی بنیادوں پر حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تعلیم ایک بے سکت معاشرے کو تحریک دلاتی ہے۔ سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے، خوش اخلاقی سے پیش آنے، محب وطنی کا احساس دلانے، اور قوم کو ترقی کی جانب گامزن کرنا تعلیم ہی کی مرہون منت ہے۔

دین اسلام نے تعلیم کو ہر مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے مگر بد بختی سے اس پرعملی اقدامات اٹھانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ صرف تعلیم کا نعرہ اخباروں اور بیانات تک محدود ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اور کوئی Facilities نہیں جس کے زریعے ہم تعلیم سے استفادہ حاصل کر سکیں۔

اب آتا ہوں اپنے موضوع ضلع آواران کے ایک دیہات چراگاں کی جانب جہاں پر میں پیدا ہوا ہوں۔ جس کا درد دل میں محسوس ہوکر اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنے گاؤں کے ایک نمائندے کی حیثیت سے تعلیمی مسائل کو قلم بند کروں۔ جہاں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جہں نوجوان طبقہ اپنی روزی روٹی کیلئے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں یا بیرونی ممالک دبئی وغیرہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

آواران رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا تیسرہ بڑا ضلع ہے، جو مکران اور لسبیلہ کے درمیان میں واقع ہے۔ جہاں کے لوگ مال مویشی کھیتی باڈی کرتے ہیں اور انکے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیج دیں، اگر کسی گھر کا ایک یا دو شخص بیرونی ممالک میں بر سر روزگار ہیں، تو وہ اپنے بچوں کو بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں، مگر بہت کم لوگ ہیں جن کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں۔

بد قسمیتی سے اس جدید دور میں آواران تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔ ضلعے میں کہیں صرف اسکولوں کے چند نام کے عمارات موجود ہیں مگر وہاں اچھے اساتذدہ اور دوسرے سہولیات کی کمی نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک بڑے ضلعے میں یونیورسٹی اور دوسرے ٹیکنیکل اداروں کی اشد ضروری ہوتی ہے، مگر اب ہمارے مطالبات اسکولز تک محدود ہیں، لیکن وہ بھی میسر نہیں۔ اچھے کالجز نہ ہونے کی وجہ سے آواران کے طلبہ میٹرک، ایف اے کے بعد اپنا تعلیم ترک کر دیتے ہیں یا تو مزدوری کرتے ہیں یا انکو بیرونی ممالک میں روزگار ڈھونڈنے کیلئے نکلنا پڑتا ہے۔

آواران میں صرف ایک نام کا انٹر کالج موجود ہے، مگر کوئی بھی سہولت موجود نہیں، کالج بند ہے۔ اگر سرکاری سطح پر فنڈگ ہوتا ہے تو وہاں کے آفیسر جو تعلیم کے دعوے کرتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ان فنڈوں کو بانٹتے ہیں ۔

لہٰذا حکام بالا سے میں عرض کرتا ہوں، ہائیر ایجوکیشن کے منسٹر اور دوسرے عہدوں پر فائز آفیسر جناب ایم پی اے آواران میر عبدالقدوس بزنجو سے کہ وہ آواران میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ تعلیم انسان کی تیسری آنکھ ہے اس مسئلے کے حل کیلئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اور اس مسئلے کے حل کو اپنا فریضہ سمجھ کر ضلع آواران کو اندھیرے سے نکال کر تعلیمی سہولیات سے آراستہ کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔