تعلیمی بحران اور ہم – ذکریا بلوچ

182

تعلیمی بحران اور ہم

ذکریا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں تعلیمی بحران صدیوں سے چلتا آرہا ہے، نہ اس کی بہتری کے لیئے اقدام اٹھائے جاتے ہیں نہ ہی اس کے رخ کو موڑنے کیلئے کسی بند کی تعمیر کی گئی. روزمرہ زندگی میں ہماری سرزمین کو مسائلستان کا درجہ دےدیا گیا ہے, گلستان کو اجاڑ دیا گیا ہے, بیابانوں کو روندا گیا ہے اور مسلمانیت کا دارو مدار پیسہ, نام اور نفرت پر رکھا گیا ہے۔

بول چال, ثقافت اور تہذیب کا شہر بلوچستان کی سرزمین کو کہاجاتاہے اور آج تک ہمارے آب و اجداد اس ثقافت, تہذیب اور بول چال کو زندہ رکھ چکے ہیں. نہ کوئی اسے چھین سکتا ہے اور نہ ہی اسے بدلنے کی کوشش کرسکتا ہے. آج بھی ہم نورا مینگل, چاکراعظم اور نوری نصیر کی مثال بن کر قومی و بین الااقوامی افق پر لہراتے ہیں۔

بلوچستان میں تعلیمی بحران کی اصل وجہ سیاسی مداخلت, ایک برباد بورڈ, بنا ٹرین اساتذہ, بنا تجرباتی اساتذہ, غیردلچسپ سلیبس اور میٹرک یا انٹر کے طلباء کا اساتذہ بننا.

بلوچستان دنیا کا وہ واحد اور عجیب ترین خطہ ہے، جہاں میٹرک کے طلباء میٹرک پاس کرکے، میٹرک کے طلباء کو پڑھاتے ہیں, یہ ہماری بد قسمتی ہوگی یا اسکول نظام کا ارادہ کچھ یوں کمانے کو ہے. درد سمجھ کر کوئی یہاں مخلصی سے کام کرنے کو تیار نہیں. سیاسی مداخلت نے تو کسی بھی ادارے کو بلوچستان میں نہیں چھوڑا اور نہ ہی کسی فرد کو مخلصانہ انداز میں کام کرنے کی آذادی دی.

المیہ یہ ہے کہ بلوچستان بھر کا ایک بورڈ ہے، جس میں مہینوں گذرتےہیں کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے میں, اور تو اور یہاں بداخلاقی اور بدسلوکی کا رواج بہت دیکھنے کو ملتا ہے.

سلیبس کا غیر دلچسپی ہونا ایک لاشعوری اور ایک گھٹن معاملہ ہے، یہاں بچے بہت کم سیکھتے ہیں بانسبت آؤٹ آف کورس سیکھتے ہیں.

بچوں کو انکے سائیکولوجی کے حساب سے پکچرز, رائیٹنگ بورڈز, مشینز, اور لیبز میسر ہوں تاکہ وہ اپنی سائیکو اور اپنی ماحول میں ہونے والے روشن سورج کو سمجھ سکیں. انہیں اچھے اور کاپریٹو استاذہ فراہم کیئے جائیں، تاکہ ان میں اساتذہ کرام کی محبت زیادہ اور نفرت کم پیدا ہوسکیں, اور جو مضامیں ایک ہفتے میں سمجھائے جاسکتے ہیں، وہ صرف دو دن میں بہترین مثالیں اور تجربات کرنے سے سکھایا جاسکتا ہے. معاشرتی تبدیلی اساتذہ کرام و طلباء لاسکتے ہیں اور اس میں اہم کردار اساتذہ کا ہی ہوتا ہے.

ہمارے دیس میں رائج نفرت, تعصب پرستی, نفی حسد اور غلط بیانیہ اپنی جڑیں بہت مضبوط ارادوں کے ساتھ جکڑوا چکی ہے اور یہ جڑیں ہماری ہی بدولت اس مقام تک پہنچ چکی ہیں.

سب سے بڑا المیہ اور بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہر شخص ٹیچر بننا چاہتاہے, وہ انجنیئرنگ کرچکا ہے اور کہتاہے یار جاب نہیں ملتی اسی لیئے ٹیچر بن چکاہوں, کوئی کمپیوٹر سائنس, تو کوئی بی اے, تو کوئی ایم اے انگلش کرچکاہے لیکن پڑھاتا بیالوجی,کیمسٹری یا فزکس ہے, ہر کوئی اپنے رستے کو چھوڑ کر دوسروں کیلئے خلل بن چکاہے.

اسکول نظام کی بات تو کوئی نہیں کرتا، ہر کوئی یہ سوال پوچھ تو لیتا ہے کہ میرا بچہ یا بچی کیسے ہیں پڑھنے میں اور یہ نہیں دیکھتا کہ کس لیول کا اساتذہ اس کو پڑھاتے ہیں, یہاں ایسے بھی اسکول ہیں جو اچھا خاصہ کاروبار چلارہے ہیں, میٹرک پاس طلباء کو تین, چار, پانچ ہزار کے نوٹ ہاتھوں میں تھماکر ہمارے بچوں کے مستقبل کو کھڈے میں ڈال دیا جاتاہے.

نئی نسل کو نئے مسائل سے روشناس کرانا ہمارا فرض ہے اور انکو ان کا مقابلہ کرنا سکھانا بھی ہمارے فرائض میں آتاہے. انکو آج کی حقیقت بتادینا اور انکو آج سے خبر دار کرنا ضروری ہے, ہمیں ہر کام میں سپورٹ, کاپریٹ, اور انکے ساتھ بیٹھ کر انکے مسائل سن کر انکے حل کی کوشش کریں, انکو ہر اچھے کام، اچھے عمل میں تحسین دیں، اچھے الفاظ کے ساتھ پیش کریں اور انہیں آگے جانے کا جذبہ دیں.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔