’’بھگت سنگھ‘‘ – انقلابی ورثہ سلسلہ

1962
’’بھگت سنگھ‘‘
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ کی نو سامراجیت پسندی صرف بھارت کے لئے خطرے کا باعث نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ خصوصی طور پر ایشیا‘ افریقہ‘ عرب ممالک‘ لاطینی امریکہ بشمول پوری دنیا کے لئے ہے۔ اس مشکل وقت میں ہمیں بھگت سنگھ اور چی گویرا کی یاد آرہی ہے۔ ان دونوں نے ہرنوع کی سامراجیت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنگ لڑی۔ چی گویرا کی داستان سے ساری دنیا واقف ہے۔ لیکن بھگت سنگھ کی کہانی۔۔۔۔۔۔جو برطانوی سامراجیت کے خلف نبردآزمارہا۔۔۔۔۔۔آئس لینڈ کی قدیم رزمیہ داستان کی طرح دوبارہ بیاں کرنے کی متقاضی ہے کیونکہ اس کہانی میں وہ جوہرموجود ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے حوصلوں کو بلند کرسکتا ہے۔

8اپریل 1929کو بھگت سنگھ اور بی۔کے۔دت کامرکزی مجلس مقننہ میں غیر مہلک بم پھینکنے کا مقصد یہ تھا کہ ’’محروم سماعت کو سماعت ملے‘‘’’انقلاب زندہ باد‘‘ اور ’’سامراجیت مردہ باد‘‘ کے نعرے کو بھیلایا جاسکے جو ہندوستانی جنتا کے ذہنوں سے چپک کر رہ گئے تھے۔ غالباً 1947سے ہندوستان کی تاریخ میں سوائے ان دونکات کے حوالوں کے کسی اور نکتے نے اتنی اہمیت اختیار نہیں کی تھی جتنی کہ آج اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نعرے ہندوستان کے انقلابی تحریک کے مخصوص تناظر میں وصفی طور پر ارتقا پذیری کے حامل تھے۔ ان نعروں نے ماقبل پسندیدہ نعرے ’’بندے ماترم‘‘ کی جگہ لے لی۔ یہ تغیر سنسکرت سے خالص ہندوستانی اور انگریزی میں صرف لسانی سطح پر نہیں تھا بلکہ یہ مسلک کی انقلابی تحریک کے شعور کی اعلیٰ نشوونما کو نشان زد کررہا تھا۔ اس اعلیٰ شعور کی تبدیلی میں اہم کردار بھگت سنگھ کے سوا اور کسی نے نہیں ادا کیا۔ بھگت سنگھ نے انقلاب کی تحریک کے تجربات اور دنیا میں رونما ہونے والے تبدیلیوں کا باقاعدہ مطالعہ کرکے خاص طور پر سوویت یونین کے مطالعاتی تجربوں سے اس نتیجے پر پہنچے کہ مادرِ ہند کو غیر ملکیوں کی زنجیر غلامی سے آزاد کرالینا ہی کافی نہیں بلکہ اس سے زیادہ اہم قوموں کو زیرنگیں بنانے اور استحصال کرنے کے پورے نظام کو سمجھنا یعنی سامراجی نظام کو سمجھنا پھر اس نظام کو ختم کرنے کے رموز کو جاننا ہے۔ اس بات کا جاننادلچسپی سے خالی نہیں کہ بھگت سنگھ نے ان سب کا مطالعہ چودہ پندرہ برس کی عمر ہی سے شروع کردیا تھا۔ غالباً 1947سے ہندوستان کی تاریخ میں سوائے بھگت سنگھ کے ان دو نکات کے حوالوں کے کسی اور نکتے نے اتنی اہمیت اختیار نہیں کی تھی جتنی کہ آج اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں کیونکہ عہد حاضر کی سامراجی قوتیں عہد گذشتہ کی سامراجی قوتوں سے کہیں زیادہ خوفناک صورت میں موجود ہیں۔

بھگت سنگھ28دسمبر1907کولائل پوربنگا (پاکستان) میں اس روز پیدا ہوئے تھے جس دن ان کے والد کشں سنگھ اور دو چچا اجیت سنگھ اور نوجوان سوارن سنگھ کو برطانوی قید و بند سے رہائی ملی تھی۔ سوران سنگھ جن کو قید و بند کے دوران میں دق کی بیماری لاحق ہوگئی تھی رہائی کے چند دنوں کے بعد عین جوانی میں 24برس کی عمر میں فوت ہوگئے۔ بھگت سنگھ کے بڑے چچا اجیت سنگھ کو جو ’’بھار ماتا سوسائٹی‘‘ کے بانی تھے، لالا لجپت رائے کے ساتھ 1909میں جبراً ملک بدر کردیا گیا۔ اس وقت بھگت سنگھ دوبرس کے تھے۔ اجیت سنگھ اس وقت وطن واپس لوٹے جب ہندوستان کی آزادی کے دن بالکل قریب آگئے تھے۔ وہ 15اگست 1947کو عین ہندوستان کی آزادی کے دن ڈلہوزی میں انتقال کرگئے۔ 1919میں جب بھگت سنگھ کی 12برس تھی جلیاں والا باغ‘ امر تسر کو دیکھا جہاں برطانوی حکومت نے تحریک آزادی کے پرستاروں کا قتل عام کیا تھا اور وہاں سے وہ مٹی اپنے ساتھ لائے جس میں مقتولوں کے خون جذب ہوگئے تھے۔ چودہ سال کی عمر میں (1921)جب وہ لاہور کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھے اپنے دادا کو اس بات سے آگاہ کیا کہ ریلوے کے ملازمین ہڑتال کی تیاریاں کررہے ہیں۔

بھگت سنگھ نے پندرہ سال کی عمر میں نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ قبل ازیں وہ اپنے گاؤں کی اس تحریک کو خوش آمدید کہہ چُکے تھے جو اکالی کارکنوں نے اس وقت چلائی تھی جب 4فروری 1921میں مہانت نرائن داس نے برطانوی حکام سے مل کر 140پجاریوں کو ننکانہ صاحب کے گُردوارے میں قتل کردیا تھا۔

بھگت سنگھ کے بڑھتے ہوئے انقلابی رجحان نے ان کے گھر والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ خاص طور سے ان کے والد ان کے اندر نشوونما ہوتے ہوئے باغیانہ کردار کی وجہ سے خدشات میں مبتلا تھے اور ان کے اس انقلابی رجحان پر قابو پانے کے لئے انہوں نے بھگت سنگھ کو شادی کے بندھن میں باندھنے کا سوچا۔ گھر میں پہلے ہی دوجوان سال عورتیں موجود تھیں۔ایک بھگت سنگھ کے چھوٹے چچا سوارن سنگھ کی بیوہ اور دوسری بی بی ہرمن کورتھیں جوان کے انقلابی چچا اجیت سنگھ جو جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے ان کی بیوی تھیں۔ بھگت سنگھ کے والد نے سوچا کہ جب اجیت سنگھ کو شادی کی زنجیریں روک سکتی تو کیا بھگت سنگھ کی شادی کراکے اس کے پاؤں میں بیڑی ڈالی جاسکتی ہے؟

بھگت سنگھ اپنی دونوں چچیوں کی سوگوار حالت سے بہت روہنسااور جذباتی ہورہا تھا۔ خاص طور سے اجیت سنگھ کی بیوی کے دُکھ سے جن سے وہ بہت قریب تھا۔ جے دیو گپتا (بھگت سنگھ) کے ایک قریبی ہم جماعت کے مطابق جب اجیت سنگھ کو اس کی بڑی چچی یعنی اجیت کی بیوی ہرمن کور کی گود میں منہ بولے بیٹے کے طور پر دے دیا تھا۔ وجہ جو بھی ہو۔بھگت سنگھ، اجیت سنگھ کے سیاسی بیٹے کی طرح تھا۔ بھگت سنگھ اجیت کی غیر حاضری کے باوجود ا ن سے گہرے طور پر وابستہ رہا۔
فکری اور نظریاتی لحاظ سے اجیت سنگھ پنجاب کے کانگریسی لیڈروں سے زیادہ جدید سوچ رکھتے تھے۔ خاص طور سے اس تناظر میں کہ ہندوستان کی آزادی کا کیا مطلب ہے۔ وہ فکر کے لحاظ سے کانگریسی لیڈروں سے زیادہ انقلابی تھے۔ وہ اس بات کے متمنی تھے کہ بڑے بڑے جاگیرداروں کی اقتصادی استحصال اور نوآبادیاتی نظام کے استبداد کا احساس دلاکر کسانوں کو بیدار اور متحد کیا جائے ۔ بھگت سنگھ اپنے چچا اجیت سنگھ کی جدید سوچ سے بھی آگے نکل کرمارکس کے نظریہ آزادی کی منطقیت تک جا پہنچے تھے۔

بھگت سنگھ 15برس کی عمر کو پہنچے تو اپنے والد سے یہ سوال کیا کہ مہاتما گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک ’’سانحہ چاری چورا‘‘ کی بنا پر کیوں واپس لی۔ حقیقت یہ ہے کہ عدم تعاون کی تحریک واقعہ چوری چورا 1922کے بعد پورے ہندوستان کے نوجوانوں اور انقلابیوں کے لئے فریب نظر ثابت ہوئی۔ چندراشیکھر آزاد۔۔۔جس پر ماہتما گاندھی کے نعرے لگانے کی پاداش میں کوڑے پڑے۔۔۔۔۔۔وہ بھی ان نوجوانوں میں ایک تھا جو بدلتی ہوئی صورت حال کا تلخ تجربہ رکھتے تھے۔ بعد ازاں اپنے انقلابی رویوں ارو سرگرمیوں کے سبب وہ ماتما گاندھی پر کبھی اعتماد قائم نہ رکھ سکے۔ یہ انقلابی نوجوان گاندھی جی کے بجائے سی۔آر۔داس، جواہر لال نہرو، سوبھاش چندربھوس، لالالجپت رائے اور مدن موہن مالویہ سے جاملے۔ البتہ ثانی الذکر سے مراسلت قائم رہا۔ سکھ دیو کا خط گاندھی کے جواب کے ساتھ ’’ینگ انڈیا‘‘ میں اس کی پھانسی کے بعد شائع ہوا۔ اگرچہ یہ خط کافی پہلے لکھا گیا تھا لیکن یہ درست ہے کہ سکھ دیو کا خط گاندھی جی کو اس وقت موصول ہوا جب سکھ دیو اور اس کے ساتھ بھگت سنگھ اور راج گرو کو پھانسی پر چڑھایا جاچُکا تھا۔

1922میں ترکِ ’’تحریک عدم تعاون‘‘ نے پورے ملک میں انقلابی تحریک کو بڑھاوا عطاکیا۔ اگرچہ انقلابی یونٹس پہلے ہی سے بنگال میں ’’اہوشیلان‘‘ اور ’’یوگانتر‘‘ کی صورت میں اور متحدہ صوبے میں ہندوستان ریپلکن ایسوسی ایشن (ایچ۔آر۔اے) وغیرہ کی شکل میں موجود تھیں۔

بھگت سنگھ اپنے والد کو خط کے ذریعے یہ بتانے کے بعد کہ انہوں نے اپنی زندگی قوم کے لئے وقف کردی ہے اور یہ کہ اب وہ شادی کے بارے میں کچھ سوچنے کو تیار نہیں۔ 1923میں کان پور گئے۔ کانپور جاتے وقت نیشنل کالج میں بھگت سنگھ کے ایک استاد جے چندرودیالنکر نے گنیش شنگرودیار تھی، مدیر پرتاپ اور کانپور کانگریس متحدہ صوبے کے رہنماء کے نام ایک خط دیا تھا جس میں بھگت سنگھ کا تعارف تھا۔ بھگت سنگھ نے نہ صرف کانپور میں ’’پرتاپ‘‘ کے لئے کام کیا بلکہ وہ زیرزمین انقلابی تنظیم ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ۔آر۔اے) میں بھی شامل ہوگئے جس کے منتظم ’’بندی جیون‘‘ کے منصف سچندر ناتھسنیال تھے۔ سچندر ناتھ سنیال اس وقت انڈمان جیل میں تھے۔ بھگت سنگھ کی ملاقات ان سے لاہور میں ہوئی۔ یہ کانپور ہی تھا جہاں بھگت سنگھ کی ملاقات بجوائے کمار رسنہا، شیوورنا، جیدر کپور، بی۔کے۔دت اور اجئے گھوش سے ہوئی۔ لاہور میں سکھ دیو اور بھاگوتی چرن وہرا س کے کامریڈ ساتھ تھے۔ کانپور میں بھگت سنگھ کا قیام صرف چھ ماہ رہا۔ اس اثنا میں بھگت سنگھ نے ’’پرتاپ‘‘ میں بَلونت (قلمی نام) سے مضامین لکھے، فلڈریلیف میں جزوی طور پر منسلک رہے، علی گڑھ سے قریب واقع نیشنل اسکول میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر فرائض اداکئے۔ دادی کی علالت کی خبرسن کر وہ لاہور واپس آئے لیکن اس یقین دہانی ملنے کے بعد کہ ان سے ان کی شادی کے بارے میں کوئی کچھ بات نہیں کرے گا۔

سترہ سال کی عمر تک وہ دانشورانہ بلوغت کو پہنچ چکے تھے۔ اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ انہوں نے پنجاب میں زبان کے مسئلے پر ہندی میں ایسا مضمون لکھا کہ انہیں اس پر انعام ملا۔ انہوں نے 1924اور 1925میں ’وشوپریم‘ (عالمگیر محبت) اور ’یوواک‘ کے نام سے علی الترتیب دوکتابیں لکھیں جو مٹوالا میں شائع ہوئیں۔ یہ دونوں کتابیں انہوں نے اپنے قلمی نام ہی سے لکھی تھیں۔ انہوں نے ایک مضمون ’ہولی کے دن خون کے چینٹے‘ کے عنوان سے ان چھ ببراکالی انقلابیوں پر بھی لکھا تھاجن کو 1926میں سولی پر چڑھادیا گیا۔ بھگت سنگھ نے یہ مضمون ’’ایک پنجابی نوجوان‘‘ کے نام سے لکھا تھا اور پھر 1930میں انہوں نے ’میں خداکامنکر کیوں ہوں‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا جس میں انہوں نے1926میں جب وہ ابھی 19برس کے بھی نہیں ہوئے تھے۔ اپنی لامذہبیت قبول کرنے کے بارے میں منطقی جواز پیش کیئے تھے۔ مارکس ازم کے بارے میں ان کی وسیع معلومات اور شعوری پختگی کا سبب یہ تھا کہ دوارکہ داس لائبریری میں مارکس ازم سے متعلق کافی لٹریچر پہنچتا رہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1924کے لگ بھگ، بھگت سنگھ اس کتب خانے کے ایک بہت ہی جوشیلے اور پُرشوق قاری بن گئے تھے۔ بھگت سنگھ نے اپنی جستجو کو لادینیت تک محدود نہیں رکھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک وسیع انسانی آزادی کے حامل نظریات کے تلاش میں تھے ۔ جب ان کا رابطہ جریدہ ’’کرتی‘‘ گروپ سے بڑھا جس کا تعلق پنجاب کے غھدرائٹ انقلابیوں سے تھا تو وہ تقریباً ایک کمیٹڈ مارکسٹ بن چکے تھے۔ انہوں نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ ’’کرتی‘‘ میں مختلف موضوعات مثلاً فرقہ پرستی اور اس کا حل ‘ اچھوت پن کے مسائل‘ مذہب اور ہماری جدوجہد آزدی وغیرہ جیسے مسائل پر مضامین تحریر کیے۔ اگرچہ وہ گھڈرائٹ انقلابیوں سے کچھ اختلافات بھی رکھتے تھے مگر اس کا تعلق انقلابی پارٹی کے پروگرام کے حوالے سے تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے دیگر انقلابی ساتھ پورے ملک کو خواب غفلت سے بیدار کرنے پر آمادہ ہوچکے تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ نوجوان نسل جرات مندی کے ساتھ قومی انقلابی کارکردگی کا مظاہرہ کریں ار نو آبادیاتی نظام کے خلاف چلنے والی تحریک کو آگے بڑھائیں۔

’’سوشلسٹ ایجنڈا کی مقبولیت‘‘

1928تک نہ صرف بھگت سنگھ بلکہ سُکھ دیو اور بھگواتی چرن وہرہ پنجاب میں اور بجوائے کمارسنہا ار جے۔دیو۔کپور یوپی میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی انقلابی جماعت کا ایک ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ۔آر۔اے)کی مرکزی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس 8اور9ستمبر 1928کو بمقام فیروزشاہ، کوٹلا، دہلی میں بلایا۔ اس اجلاس میں طویل بحث و مباحثے ہوئے اور بالآخر بھگت سنگھ کی تجویز پر جس کی حمایت سکھ دیو، بھگواتی چرن وہرہ، بجوائے کمار سنہا، شیوورما ار جے۔دیو۔کپورنے کی۔ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ۔آر۔اے) کے نام کو بدل کر ’’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ۔ایس۔آر۔اے) رکھا گیا۔ ایچ ۔آر۔اے کے نام میں لفظ ’’سوشلسٹ‘‘ کا اضافہ سجاوت کے لیے نہیں کیا گیا تھا، جیساکہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران ہندوستان کے دستور کی تمہید میں لفظ ’’سوشلسٹ‘‘ بڑھاکرکیا تھا۔

ہندوستان میں انقلاب کی منزل تک پہنچنے کی تناظر میں یہ اضافہ اپنے اندر گہری آگہی کی اعلیٰ صفات رکھتا تھا۔ جسے چندر شیکھر آزاد کی منظوری حاصل تھی۔ گو انہوں نے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے مسودے کو اچھی طرح نہیں پڑھا تھا اس کے باوجود انہوں نے بھگت سنگھ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

ایچ۔ایس۔آر۔اے کے قیام سے قبل بھگت سنگھ کو عوامی تنظیمی کام کا تجربہ حاصلہ تھا۔ یہ تجربہ ان کو اس وقت حاصل ہوا تھا جب اٹلی میں مازینی اور گاری بالدی تحریک سے متاثر ہوکر وہاں نوجوانوں کی تحریک چلی تھی اور 1926میں اس تحریک سے متاثر ہوکر ہندوستان میں بھی ویسی ہی تنظیم ’نوجوان بھارت سبہا‘ (این ۔بی۔ایس) کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ جس کے جنرل سیکریٹری بھگت سنگھ ار بھاگواتی چرن وہرہ پروپیگنڈہ سیکرٹری تھے۔ این۔بی۔ایس نے دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کی عکاسی کے لئے مشعل بردار شوکے سلسلے میں بھی کام کیا تھا۔ اس تحریک کو ’کرتارسنگھ سرا بھا‘کی قربانی نے بہت پر جوش بنادیا تھا۔ انگریزوں نے 1915میں تحریک آزادی میں ملوث رہنے کے جرم میں بمقام لاہور انہیں عین نوجوانی میں پھانسی دے دی تھی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 19برس کی تھی۔ بھگت سنگھ ہمیشہ اپنی جیب میں کرتارسنگھ سرابھا کی تصویر رکھتے تھے۔ این۔بی۔ ایس کے تمام عوامی جلسوں میں ڈائس پر کرتارسنگھ کی تصویر پھولوں کے گجرے کے ساتھ رکھی جاتی تھی۔ اس دوران میں گھڈرائٹ گروپ کے کارکن ماسکو سے انقلابی اشتراکی نظریات کی تربیت سے آراستہ ہوکر واپس آگئے تھے اور ’’کرتی گروپ‘‘ کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ سنتوکھ سنگھ نے ’’کرتی‘‘ کے نام سے پنجابی زبان میں ایک مجلے کا اجرا کیا جس سے بھگت سنگھ ایک قلمی معاون کی حیثیت سے منسلک تھے۔ سنتوکھ سنگھ کی بے وقت موت کے بعد ’کرتی‘ کے مدیر سوہن سنگھ جوش ہوگئے۔ بھگت سنگھ نے کچھ عرصے ’کرتی‘ کے اسٹاف کے طور پر کام کرنے بعد ان فرائض کو خیرباد کہہ دیامگر وہ این۔بی۔ایس کیر سرگرمیوں کے سبب وہ سوہن سنگھ جوش ہمیشہ رابطے میں رہے۔ لاہور زمین این۔بی۔ایس کے قیام سے پہلے بھی بھگت سنگھ کانپور کے اپنے ابتدائی زمانے کے اشتراکی ساتھیوں سے ہمیشہ رابطے میں رہے۔ اس زمانے میں کانپور محنت کشوں کا شہر کہلاتا تھا۔ کانپور کے اشتراکی ساتھیوں میں جن سے ان کا مسلسل رابطہ رہا ان میں ستیا بھگت، رادھاموہن گوکل جی اور شوکت عثمانی قابل ذکر ہیں۔ عملی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھگت سنگھ ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کے ابتدائی عہد ہی سے اس کا جزولانیفک بنے رہے اس حقیقت کی تصدیق ان کے بعد کی سرگرمیاں کرتی ہیں۔ البتہ وہ اس زمانے میں کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ رکن نہیں تھے کیونکہ اس وقت یہ تحریک یا پارٹی اپنی ابتدائی عمر میں تھی مگر وہ یکے ازبانیان اشتراکی تنظیم مظفر احمد سے مل چکے تھے۔ مظفر احمد سے بھگت سنگھ کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ 1924میں کانپور سازش کیس کے تحت جیل سے رہا ہوکر لاہور آئے تھے۔ اس زمانے میں بھگت سنگھ کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس وقت وہ اور ان کے دوسرے قریبی ساتھی خود اپنی تنظیم این-بی-ایس کو ایک انقلابی جماعت بنانے میں کوشاں تھے۔ بھگت سنگھ پر یہ حقیقت واضح تھی کہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن(ایچ۔ایس۔آر۔اے) کے جھنڈے تلے کسانوں طالب علموں اور معاشرے کے دیگر انقلاب پسندوں کو جمع کرنا ضروری ہے ۔ لہٰذا بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی طور پر ہندوستان کے غیر ترقی ساسی شعور کے حامل عوام کو بیدار کرنے کے لئے کچھ قابلِ دید انقلابی سرگرمی چاہیے۔ خاص طور سے نوجوان انقلابیوں کی طرف سے ایسے مثالی کارنامے کے مظاہرے کی ضرورت ہے جن سے نیند کے مارے عوام کو بیدار اور مجتمع کرکے حکومت برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد کا آغاز کیا جاسکے۔ اس ضمن میں بہت مناسب انداز میں کچھ اقدامات کا تعین کیا ۔ لیکن ستمبر 1928میں ہندوستان سوشلسٹ ریپلکن ایسوسی ایشن کے معرض وجود میں آنے کے بعد کچھ سیاسی واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے HSRAکو ایک بھر پور عوامی طاقت سے مملو تنظیم کی مہلت نہ ملی ۔ بہ ایں ہمہ اس اثنا میں NBSکے علاوہ لاہور اسٹوڈنٹس یونین‘ بال اسٹوڈنٹس یونین اور بال بھارت سبھا جیسی تنظٰیمیں معرض وجود میں آتی رہیں۔

اس کا جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ بال بھارت سبھا کے قیام میں NBSنے مدد کی تھی۔ یہ تنظیم 12سے 16برس کے اسکول کے طلبا پر مشتمل تھی۔ کوئی مورخ ابھی تک جدوجہد آزادی کے اس رُخ پر توجہ دیتا نظر نہیں آتا۔ امر تسر بال بھارت سبھا کا صدر‘ کاہن چندکوجس کی عمر صرف گیارہ (11)سال تھی‘ تین ماہ کی قید بامشقت سزا کاٹنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ پاش جس کی عمر 10برس تھی اور جوبڑا ہوکر بعد میں معروف اور روزنامہ ’’ملاپ‘‘ کا ایڈیٹر ہوا۔ وہ اس تنظیم کا جنرل سیکریٹری تھا۔ اس پر تین قسم کے مقدمے چلائے گئے جن میں لاہور سٹی کانگریس اور این۔بی۔ایس کی اعانت کا الزام بھی شامل تھا۔ ان دنوں ایک ہزار ایک سوبیانوے (1192)نو عمروں کو پندرہ برس سے کم کے تھے انہیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کے جرم میں سزا دی گئی۔ بال بھارت سبھا کے علاوہ بال اسٹوڈنٹس یونین بھی اس جدوجہد میں شامل تھی۔ اس زمانے میں نہ صرف بھگت سنگھ نے پنجاب کے نوجوانوں کو طلباء تنظیموں میں شمولیت کی ترغیب دی بلکہ لاہورسٹی کانگریس بھی بھگت سنگھ کے مقناطیسی شخصیت سے متاثر تھی۔ لالا لجپت رائے کا پوتا بلا یوراج بال اسٹوڈنٹس یونین کا سیکریٹری اور دیانت رائے اس کا صدر تھا۔ یہ سب کچھ بھگت سنگھ اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کی حب الوطنی کے جذبوں کے پھیلانے کی کوششوں کا ثمر تھا۔

’’نوآبادیاتی استبداد‘‘

نوجوانوں پر اپنے اثرات مرتب کرنے والے بھگت سنگھ کو لاہور کی پولیس نے مئی 1927میں گرفتار کرلیا۔ ان کو اکتوبر 1926میں دسہرہ بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں قید کرلیا گیا۔ اسی زمانے میں بھگت سنگھ پنجاب میں ایک بڑی عوامی جدوجہد کا منصوبہ بنارہے تھے مگر اس سے پہلے کہ یہ عظیم منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہندوستان میں سائمن کمیشن آ دھمکا۔ 28اکتوبر 1928کو این۔بی۔ایس کی جانب سے سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرے کا انتظام کیا گیا۔ بھگت سنگھ ‘ لالا لجپت رائے فرقہ پرستوں سے گٹھ جوڑ رکھنے کے سبب اختلاف رکھتے تھے۔ اس کے باوجود ان سے اس مظاہرے کی قیادت کی درخواست کی۔ اگرچہ بھگت سنگھ خود اس مظاہرے میں شریک نہیں تھے مگر این۔بی۔ایس کے کارکن لالا لجپت رائے کے ساتھ ساتھ تھے اور ان کو بھر پور تقویت پہنچارہے تھے۔ اس مظاہرے میں برطانوی پولیس سے تصادم ہوگیا۔ لاہور سٹی کے ایس پی سکاٹ نے لاٹھی چارج کرنے کا حکم دے دیا اور اسکاٹ کا ڈپٹی ساونڈر نے بہ نفسِ نفیس لالا جی کو زدوکوب کیا جس کے نتیجے میں 18نومبر کو وہ راہی ملکِ دم ہوئے۔

اس سانحے کے پیش نظر سی۔آر۔داس مرحو م کی بیوی بسنتی دیوی نے ملک کے نوجوانوں کو شدید اور پُرزور انداز میں کہا کہ وہ قوم پر مسلط کی جانے والی ذلت کا انتقام لیں۔ بھگت سنگھ نے اس موقع کو ضائع ہونے نہیں دیا۔ اس طرح HSRA نے اسکاٹ سے بدلہ لینے کی ٹھانی جو لالالجپت جی پر حملے کا حکم دینے کا ذمے دار تھا۔ بھگت سنگھ اور راج گرو کے ذمے اسکاٹ کو ہلاک کردینے کا کام سونپا گیا۔ جے گوپال کے سپرد اسکاٹ کو پہچاننے کا کام دیا گیا اور پوری ٹیم کی معاونت کے فرائض چندر شیکھر آزاد کو ادا کرنے تھے۔ بھگت سنگھ کو اسکاٹ پر پہلے گولی چلانی تھی مگر جیسے ہی جے گوپال نے برطانوی افسر کی شناخت کا سگنل دیا راج گرو نے چشمِ زدن میں اسکاٹ کے ڈپٹی ساونڈر پر گولی چلادی جبکہ بھگت نے بلند آواز میں راج گرو کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ اسکاٹ نہیں ساونڈر ہے (لاہور سازش کیس کی کاروائی کے مطابق۔شکھ دیو کا نوٹ) اس سے پہلے کہ بھگت کی آواز راج گرو تک پہنچتی سانڈر ان کی گولی کا نشانہ بن چُکا تھا۔ راج گرو ہمیشہ ہر اول دستے میں رہنے اور اس قسم کی کاروائی میں سبقت لے جانے کے لیے مستعد رہا کرتے تھے۔

بھگت سنگھ کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ مزید تین یا چار گولی ساونڈر کے جسم میں پیوست کردیں تاکہ اس کی موت یقینی ہوجائے اور وہ زندہ نہ بچے۔ دوسری صبح پوسٹرز نکلے جس میں ساونڈر کو قتل کرنے کی ذمہ داری انقلابیوں نے اپنے سرلی تھی۔ ساونڈر جونہ صرف لالا جی کے قتل میں برابر کا شریک تھا بلکہ اسکاٹ کی طرح وہ بھی نوآبادیاتی نظام کی قوت کی ایک مکمل علامت بھی تھا۔ اس واقعے سے بھگت سنگھ کی کی تقدیر کا ستارہ ڈوب گیا اور انہوں نے اپنے طور سے اس بات کا یقین کرلیا کہ اس مقدمے میں گرفتاری اور پیشی کے بعد انہیں ختم کردیا جائے گا لہٰذا بھگت سنگھ نے دیگر انقلابیوں کی طرح یہ فیصلہ کرلیا کہ زندگی کے ان باقی دنوں میں جتنی بھی نمایاں انقلابی کاروائی کی جاسکتی ہے کرلی جائے۔

کاکوری ڈاکہ زنی کیس میں ملوث ہونے کی وجہ سے بھگت سنگھ کے بہت سے ساتھی جن میں چندر شیکھر آزاد بھی شامل تھے‘ روپوش ہوگئے تھے۔ ساونڈر کے قتل کے واقعے کے بعد بھگت سنگھ، راج گرو‘ سُکھ دیو اور دیگر کامریڈ کو بھی روپوش ہوجانا پڑا تھا۔ بھگت سنگھ ‘ درگا بھابھی کے ساتھ کلکتہ جانکلے جہاں وہ بہت سے بنگالی انقلابیوں سے رابطہ پیدا رکرتے رہے۔ ان انقلابیوں میں سے جتندر ناتھ اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ وہاں کے انقلابیوں کو بم بنانے کا گُر سکھائیں گے۔

اس عرصے میں HSRA کی سرگرمیاں جو اشتراکی نظریات کی حامل آزاد ہندوستان کی حامی تھی معطل رہی۔جیسا کہ اوپر کہا جاچُکا ہے اس تنظیم کے انقلابی اس بات کے لئے کوشاں تھے کہ محنت کشوں‘ کسانوں‘ طالب علموں اور دیگر نوجوانوں کو متحد کیا جائے مگر ساونڈر کے قتل کے واقعے اور دیگر مقدمات کے سبب وہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے کھلے بندوں کام نہیں کرسکتے تھے نہ یہ لوگ کانگریس کی آڑ لے کر آزادانہ سیاسی سرگرمی دکھاسکتے تھے کیونکہ وہ لوگ کانگریس سے سنجیدہ اور بنیادی باتوں پر شدید اختلافات رکھتے تھے۔

ان جکڑبندیوں سے پُر صورت حال میں بھگت سنگھ اور HSRA کے لیے عوام کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے انقلابی کاروائیوں کو جاری رکھنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا لیکن کم از کم جانی نقصان کے ساتھ اور کاروائیوں میں انقلابی اس طرح اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں کہ عوام ان نظریات اور منزل کے بارے میں آگاہ ہوجائیں۔ بھگت سنگھ اس بات کے بھی متمنی تھے کہ تنظیم کے دامن پر دہشت گردی کا جو داغ لگا ہے وہ مٹ جائے اور انفرادی طور پر کارکنوں پر لگاہوا یہ الزام بھی باقہ نہ رہے اس مقصد کے لیے انہیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس ہوئی جہاں سے ان کی آواز ملک کے کرورڑوں عوام تک پہنچ سکے۔ بھگت سنگھ کو اندازہ تھا لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ جان کی قربانیاں اس انداز میں پیش کی جائیں کہ اس کے اثرات ملک کے طول و عرض میں بھرپور انداز میں پھیل جائیں روز روشن میں ساونڈر کو ختم کرکے HSRAنے صداقت کا صحیح راستہ اختیار کرلیا تھا کیونکہ اس واقعے سے ملک کے لاکھوں افراد کے اندر جوش پیدا ہوگیا تھا بہرحال بھگت سنگھ نے اپنے عدالتی بیان میں یہ واضح کردیا تھا کہ نوجوان انقلابیوں کو کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے۔

’’بے حس سماعتوں کو حساس بنانے کی کوشش‘‘

جاتن داس لاہور آئے اور کچھ بم کرائے کے مکانوں میں تیار کیے گئے۔ ساونڈر کے قتل سے لوگوں کے اندر جو جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا اسے قائم رکھنے کے لئے بھگت سنگھ اس بات کے متمنی تھے کہ اسی کے مساوی ایک اور نمایاں کاروائی کا مظاہرہ کیا جائے۔ حکومت برطانیہ ان ہی دنوں عوام اور ارکان مرکزی اسمبلی کے شدید احتجاج کے باجود ’’پبلک سیفٹی بل‘‘ اور تجارتی تنازعہ بل‘ کو قانونی حیثیت دینے میں مصروف تھی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مرکزی اسمبلی میں واویلا کے لیے کچھ بے ضرر قسم کے بم پھینکے جائیں۔ یہ معاملہ HSRA کی مرکزی کمیٹی میں پیش کیا گیا۔ اس میٹنگ میں سُکھ دیو شریک نہیں ہوئے تھے۔ بھگت سنگھ نے جلسے میں اس انقلابی کاروائی کے لیے سُکھ دیو کا نام پیش کیا مگر شرکاء نے اس بنیاد پر اسے رد کردیا کہ ساونڈر کیس میں وہ مطلوب ہیں ۔ اس لیے تنظیم ایسی سنگین صورت حال میں ان جیسے رہنما کو گنوانا نہیں چاہتی۔ اگرچہ بھگت سنگھ اور سُکھ دیو قریبی دوست تھے مگر جب سُکھ دیو کو بھگت سنگھ کی تجویز کا علم ہوا تو اس نے طنزاً کہا تھا کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کی اچھی کوشش کی تھی یہ اچھی طرح جاننے کے باوجود کہ وہ جس موثر انداز میں تنظیم کے مقاصد کو آگے بڑھاسکتا تھا اس طرح کوئی دوسرا نہیں بڑھا سکتا۔ مرکزی کمیٹی دوبارہ بیٹھی اور بھگت سنگھ نے کاروائی کرنے والی جماعت میں اپنی شمولیت پر بہت اصرار کیا اور یہ تجویز بھی پیش کی کہ کاروائی کے بعد سارے انقلابی گرفتاری دے دیں گے۔ اگرچہ تنظیم یہ چاہتی تھی کہ کاروائی کے بعد انقلابی گرفتاری دینے کے بجائے فرار ہوجائیں لیکن بادل نخواستہ تنظیم نے بھگت سنگھ کی تجویز کو منظور کرلیا۔

فرانس کے پارلیمنٹ میں ایسی ہی ایک کاروائی ہوئی جس کا مقصد عوام الناس کی غربت کی جانب حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانا تھا اور جس کا نعرہ تھا کہ ’’دھماکہ کرکے بہروں کے کانوں کو سننے کے قابل بنایا جائے‘‘ اس واقعے نے بھگت سنگھ کی تنظیم کو مزید پُرجوش بنادیا۔ یہی جملہ بھگت سنگھ اور بی۔کیدت کے پمفلٹ کا بھی تھا جو انہوں نے مرکزی اسمبلی میں تقسیم کرایا اور دو غیر مہلک بم اسمبلی کی خالی نشستوں میں پھینکے۔ لیکن ان دھماکوں سے اسمبلی میں کوئی سرا سیمگی نہیں پھیلی۔ صرف چندارکان اسمبلی جن میں پنڈت موتی لال نہرو‘ مدن موہن مالویہ اور جناح چپ سادہ کر کھڑے ہوگئے۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت جس میں وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری بھی شامل تھے اسمبلی سے فرار ہوگئے اور کچھ ارکان بینچ کے نیچے چُھپ گئے۔

دوتاریخی نعرے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ اور ’’سامراج مردہ باد‘‘ آگے چل کر یہی نعرے خاص طور سے انقلاب زندہ باد نہ صرف انقلابیوں کے اہم جز بن گئے بلکہ دیگر جماعتوں نے بھی اسے اپنا لیا جن میں کانگریس بھی شامل تھی حتیٰ کہ راشٹریہ سوام سی ویک، ہندو مہاسبھا اور دیگر فرقہپسند جماعتوں نے بھی اس نعرے کو اپنا نعرہ بنالیا جن کا انقلاب سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔

اصل میں یہ نعرہ جس کا مطلب یہ ہے ’’انقلاب کی عمر دراز ہو‘‘پوری دنیا کے محنت کشوں کا نعرہ تھا ۔ بعد میں اس نعرے کا ہندی ترجمہ ’’کرانتی چر جیوی ہو‘‘ کیا گیا مگر یہ ترجمہ عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ نہ صرف ہندی بولنے والوں میں مقبول اور پسندیدہ تھا بلکہ اس نعرے کی مقبولیت اگر تلہ سے چنیٹی اور سری نگر سے ممبئی تک پھیلتی چلی گئی ۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ پورے برصغیر سمیت دوسرے ممالک کا بھی مقبول بن گیا۔ بھگت سنگھ اپنی قلیل زندگی میں اس بات پر ناز کرنے میں حق بجانت تھے کہ انہوں نے اپنا یہ نعرہ ہندوستان کے کروڑوں عوام تک پہنچا دیا تھا۔ جس نے آخر کار ’’بندے ماترم‘‘ کی جگہ لے لی۔ بھگت سنگھ اور دت سے قبل ’’بندے ماترم‘‘ کا نعرہ قومی تحریک کے دوران (جو 1905سے 8اپریل 1929تک چلی) بڑا مقبول تھا۔ قومی تحریک کے حوالے سے بھگت سنگھ کے کارناموں کے کسی بھی معروضی تجزیے میں ان کے اس کارنامے کو نظرانداز کیا جاسکے گا کہ انہوں نے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے کو عوام الناس میں مقبول بنایا۔

’’عدالت اور قید‘‘

مرکزی اسمبلی میں انقلابی کاروائی کمال احتیاط کے ساتھ کی گئی تھی۔ کاروائی سے پہلے بھگت سنگھ اور دت کی تصویریں لی گئی تھیں۔ اسی دن یعنی 8اپریل 1929میں ان کے بیانات کی وافر کاپیاں دستیاب تھیں جو پریس کو وقت پر ملیں۔ برطانوی پولیس بھگت سنگھ اور دت کو گرفتار کرنے میں خوف محسوس کررہی تھی کیونکہ ان دونوں کے ہاتھ میں پستول تھا۔ نعرہ لگاتے ہوئے دونوں نے اپنے اپنے پستول کو میز پر رکھ دیا اس عندیے کے ساتھ کہ وہ گرفتاری دینے کے لیے تیار ہیں مگر پولیس افسران ان کو حراست میں لینے کے لیے نہیں بڑھے ۔ جب انہوں نے اپنے پستول اپنے پاس سے ہٹادیئے تب وہ ان کو حراست میں لینے کے لیے آگے بڑھے۔ اس دوران جے۔دیو کپور اسمبلی ہال سے باہر نکل چکے تھے۔

کاروائی کا ابتدائی نتیجہ وہ حاصل کرچکے تھے اب دوسرا کام یہ کرنا تھا کہ اس انقلابی کاروائی کی تشہیر ایسی کی جائے کہ ملک کے تمام عوام تک یہ خبر پہنچ جائے۔ بھگت سنگھ نے ایک اور عمدہ منصوبہ بنایا وہ یہ کہ عدالت میں وہ دونوں اپنا دفاع نہیں کریں گے بلکہ وہ برطانوی عدالت کو اپنا پیغام اور اپنے سیاسی بیانات پھیلانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں گے۔ ان لوگوں نے اپنی پیشی میں کسی وکیل کی مدد نہیں لی۔ البتہ ایڈووکیٹ کے مشوروں کو قبول کرتے رہے۔ ان کے لیے قوم پرست ایڈووکیٹ آصف علی کی خدمات دستیاب تھیں۔ یہ وہی آصف علی ہیں جنہوں نے 6جون 1929میں دہلی بم دھماکہ کیس کے تحت بھگت سنگھ اور بی۔کے۔دت کے بیانات کو دونوں کی پیشی کے وقت سیشن کورٹ میں پڑھ کر سنایا تھا۔ یہ بیانات تنظیم کی پالیسی کی دستاویز کی حیثیت رکھتے تھے۔ جن میں انقلابی کے اغراض و مقاصد کو بہت صراحت کے ستھ بیان کردیا گیا تھا۔

شیو ورما کی مرتب کردہ کتاب
The Slected Writings of Shaheed Bhagat Singh, National Book Centre, New Delhi 1986, Page 71کے مطابق : ’’ہم عاجزانہ طور پراس کے سوا کوئی دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم تاریخ کے طالب علم اور اپنے ملک کی حالت اور اس کے توقعات کے ترجمان ہیں۔ ہم منافقت سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارا عملی احتجاج اس ادارے کے خلاف جس نے اپنے قیام کے آغاز ہی سے نہ صرف نمایاں طور پر فضولیات اور سستی کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ نا انصافی کی دورس قوتوں کو تقویت بھی پہنچائی۔ ہم نے غور کیا اور بہت غوروغوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ادارے کا وجود اس لیے قائم ہے کہ پوری دنیا میں ہندوستان کی ذلت اور بے بسی کا شہرہ کرے اور اس امر کی علامت ہے کہ ہندوستان پر ایک ناقابل احتجاج استبدادی قوت کی حکمرانی ہے‘ سلومن قرارداد جسے ایوان نے پاس کیا تھا اسے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں پیروں تلے کچل دیا گیا‘‘۔

بھگت سنگھ اور کے۔بی۔دت نے اپنے اغراض و مقاصد کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:’’ہم عملاً اپنے آپ کو اس کاروائی کے جرمانے کے لئے پیش کرتے ہیں جس کے ہم مرتکب ہوئے ہیں اور سامراجی استحصالی پسندوں کو یہ جتا دینا چاہتے ہیں کہ انفرادی غارت گری کے عمل سے نظریات کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ دوغیر نمایاں افراد کو صفحہ ہستی سے مٹاکر کسی قوم کے وجود کو نیست و نابود نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

انہوں نے نوآبادیاتی قوت کے سامنے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال اُٹھایا: ’’کیا آر ڈی نینسوں اور سیفٹی بلوں سے ہندوستان جاسکتا ہے؟ کیا سازشی مقدموں اور ان نوجوانوں کو جنہوں نے ایک عظیم مقصد کو لبیک کہا ہے پابہ زنجیر کرکے انقلاب کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ اگر صورتِ حال پر وقت توجہ سے گریز نہ کیا گیا تو جانی نقصانات اور عمومی پریشانیوں کو روکا جاسکتا ہے‘ ہم نے اپنے طور پر اس وارننگ کو آپ تک پہنچاکر اپنا فرض ادا کردیا ہے‘‘۔

بھگت سنگھ اور کے۔بی۔دت نے اپنے بیان میں بتایا کہ کس ہوشیاری کے ساتھ انہوں نے دوغیر مہلک بم پارلیمنٹ کی خالی جگہوں پر پھینکے تھے جس سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ سوائے اس کے کہ چند افراد کو ہلکی خراشیں آئیں جب ان سے لوورکورٹ میں پوچھا گیا کہ انقلاب سے ان کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے شین کورٹ میں اپنے بیان میں انقلاب کی تشریح کی جومارکسی ٹرمالوجی سے بالکل قریب تھی۔ انہوں نے سرمایہ داری کے بارے میں بھی بتایا اور انقلاب کے نظریات کی کامیابی کے لئے پرولتاری حاکمیت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے برطانوی نوآبادی قوت کومارکس ازم کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی گوش گزار کیا کہ پُرامن انتقالِ اقتدار بھی ممکن اگر حکمران ہماری وارننگ پر توجہ دے‘ ان کا بیاں ایک بار پھر ’’انقلاب زندہ باد‘‘ پر ختم ہوا۔

بھگت سنگھ نظریہ انقلاب سے اس قدر منسلک ہوگیا تھا کہ اس نے اپنی ساری توجہ اور توانائی اس نظریے کو تشریح و توضیح کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ نہ حرف اپنی واقفیت کے لیے اپنے کامریڈ ساتھیوں‘ ملک کے عوام نیز سامراجی قوتوں کوبھی انقلاب کی اہمیت و فضلیت سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ’ماڈرن ریویو‘ کے مدیر رامانند چڑجی نے انقلاب زندہ باد کا مذاق اُڑایا تو بھگت سنگھ اور کے۔بی۔دت نے ایک مراسلے میں اس پر تنقید کی۔ یہ مراسلہ دی ٹریبیون‘ کے 24دسمبر1929کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ انقلاب غیر ضروری طور پر خونی تصادم میں ملوث نہیں ہوتا ۔ اس کا مسلک بم اور پستول سے عبادت نہیں ہے البتہ کبھی بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ اس قسم کی کاروائی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ انقلاب کا مقصد خونی بغاوت نہیں ہے مگر اس کا اختتام اس قسم کی بغاوت پر بھی ہوسکتا ہے۔

بھگت سنگھ کے نزدیک انقلاب کا مطلب ’’بہتر تبدیلی لانے کی جدوجہد ہے‘‘ اور وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ انقلاب انسانوں کی روح میں سرایت کرجاتا ہے اس لیے رجعت پسند قوت انقلاب کی اس قوت کو نہیں روک سکتی جو انسانوں کی اندرونی جذبے کے تحت آگے بڑھتی ہے۔ عدالت اور قید میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے دو مقاصد پیش نظر رہے ہیں :
-1عدالت کے پلیٹ فارم کے توسط سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کو طشت از بام کرنا اور اپنے نظریات کو پھیلانا۔
-2جیل میں برطانوی نوآبادیات کے تحت ہونے والی بربریت کا پردہ فاش کرنا اور عوام کی توجہ مبذول کرنے کے لیے جیل میں بھوک ہڑتال کرنا۔

برطانوی حکام ان کے منصوبوں سے ناواقف نہیں تھے مگر بھگت سنگھ اور ان کے رفیقوں نے خود کو قربان کرنے کے جذبے کے تحت خود کو ملزموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ بھگت سنگھ کا تیسرا مقصد اپنے نظریات میں پختگی پیدا کرتا تھا۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے جو پھانسی چڑھنے ہی والا ہے خود کو پوری توجہ کے ساتھ عالمی انقلابی تاریخ کے مطالعے میں محوکرنا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے صبرآزما حالات میں۔ عدالتی بیانات کی تیاری کے دوران اپنے طور پر مارکسزم کے مطالعے نے بڑی مدد کی۔ انہوں نے کئی کئی مہینوں تک بھوک ہڑتالوں کو منظم کیا حالانکہ اس دوران پولیس نے ان کی وحشیانہ طریقے سے پٹائی کی اور وہ اپنے زخموں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ انہوں نے جیل میں مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا‘ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کتابوں سے اہم نوٹس لیتے رہے۔

’’بھوک ہڑتال‘‘

بھگت سنگھ اور ان کے رفقا کی جیل میں غیر معینہ عرصے کے لیے بھوک ہڑتالیں پُرعزم تھیں اس کا ثبوت ان کے عزیز ساتھی جیتن داس کی وفات ہے جو 13ستمبر 1929کو 63روز کی تامرگ بھوک ہڑتال کے نتیجے میں واقع ہوئی زبردستی دودھ پلانے کی وجہ سے جیتن کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچا اپنے ساتھیوں کی پُرزور اپیلوں کے باوجود جیتن نے اپنی ہڑتال ختم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کی سوچ واضح تھی اور ارادہ پکا اور وہ ہندوستان کے لئے آزادی حاصل کرنے کے مقصد کے لیے جانتے بوجھتے اپنی جان دے رہے تھے۔ بھگت سنگھ اور دت نے جیتن کی وفات کے بعد بھی اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی جو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں 15دن کے بعد تھوڑی گئی۔ بھگت سنگھ نے سانڈرس قتل کا مقدمہ ٹریبونل میں چلانے کے خلاف دوبارہ بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ صدرِ عدالت کے حکم پر وحشیانہ طریقے پر پٹائی کے خلاف احتجاج کے لیے تھی۔ ٹریبونل کے ہندوستانی جج آغا حیدر نے اس واقعے کے بعد ٹریبونل سے لاتعلق ہوگئے اور انہیں ٹریبونل سے ہٹادیا گیا۔

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے بھوک ہڑتال کو سیاسی حربے کے طور پر بہت اچھی طرح استعمال کیا۔ حقیقتاً اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ ایسی قربانی دینے کے ساتھ بھوک ہڑتال ہمیشہ اور ہر سماج میں اپنی اخلاقی توانائی کی وجہ سے موثر ثابت ہوتی ہے اور اب بھی یہ ایک توانا حربہ ہے۔ ایک خودکش حملہ آور اور بھوک ہرتالی میں فرق یہ ہے کہ خودکش حملہ آور اپنی جان دینے کے ساتھ دوسرے لوگوں کی جان لیتا ہے یوں عوام کی ہمدردیاں کھودیتا ہے جبکہ بھوک ہڑتالی اپنی صحت کو نقصان پہنچاتا /پہنچاتی ہے۔ اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں جو قوم کے ضمیر کو کچولے لگاتی ہے۔

بھگت اور ان کے رفقاء اس حقیقت سے واقف تھے اور اسے بھر پور طریقے سے استعمال کیا یوں اس تاثر کو زائل کیا کہ وہ قاتل یا دہشت گرد لوگ ہیں ۔ اس سے بھگت سنگھ کی سیاسی بلوغت بھی ثابت ہوتی ہے۔ بھوک ہڑتال آج بھی کارآمد ہے۔

’’مقدمے کی کاروائی اور پھانسی‘‘

بھگت اور ان کے ساتھیوں نے سانڈرس قتل مقدمے کا بائیکاٹ کر دیا۔ ٹریبونل نے جس طرح بھگت سنگھ‘ راج گرو اور سُکھ دیو کو سزائے موت دی۔ اس کچا چٹھا اے۔جی۔نورانی نے اپنی کتاب ’’بھگت سنگھ کا مقدمہ‘‘ میں کھولا ہے، مقدمے کی کاروائی اور سزاؤں کا اعلان بالکل ایسا ہی تھا جیسے برطانوی آباد کار ہندوستانی انقلابیوں کے قتل کا حکم جاری کریں۔ بھگت سنگھ نے پھانسی سے تین دن پہلے 20مارچ کو پنجاب کو بجاطور پر لکھا تھا کہ ان کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے کیونکہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کررہے ہیں اس لیے انہیں پھانسی کے بجائے گولی مارکر ہلاک کیا جائے لیکن برطانوی سامراجی حکومت اتنی بزدل ثابت ہوئی کہ پھانسی کے لیے مقررہ وقت صبح چھ سے سات بجے پر قائم نہ رہ سکی۔ تمام بین الاقوامی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھگت سنگھ‘ راج گُرو اور سُکھ دیو کو 23مارچ شام سات بجے پھانسی دی گئی اس روز لاہور میں نوجوان بھارتی سبھا کے زیراہتمام ایک زبردست جلوس نکالا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ پھانسی 24مارچ کو صبح دی جائے گی لیکن لاہور سینٹرل جیل پر اتنے بڑے جلوس سے خوفزدہ ہوکر برطانوی نو آبادیاتی نوکر شاہی نے 23مارچ کو شام سات بجے پھانسی دیدی۔ مگر یہ خبر لاہور کے لوگوں سے چُھپائی نہ جاسکی۔ جس وقت یہ خبر آئی جلوس منتشر ہونے ہی والا تھا ، لوگ جیل کے گیٹ پر ٹوٹ پڑے، خوف زدہ برطانوی افسروں نے شہیدوں کے جسم کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے ان ٹکڑوں کو تھیلوں میں بند کیا اور انہیں جیل کے پچھلے دروازے سے نکال کر فیروز پور کے نزدیک دریائے ستلج کے کنارے لے گئے۔ جہاں گنڈ سنگھ والا گاؤں کے قریب جنگل میں ان کے جسموں پر مٹی کا تیل ڈال کر جلادیاگیا۔

’’اختتامیہ‘‘

ایک طرح سے برطانوی نوآبادیاتی طاقت سے نمٹنے کا بھگت سنگھ کا طریقہ تھا۔ ایک سوسے کم لوگوں کے گروہ کے ساتھ وہ روئے زمین پر سب سے زیادہ طاقتور سلطنت کو بدحواس کرسکتا اور ہلاسکتا تھا۔ شہادت کے لیے اپنا ایک راستہ چُن سکتا تھا۔ کروڑوں لوگوں کوجھنجوڑ سکتا تھا۔ کانگریس کے تاریخ نویس پوری کانگریس میں سبھاش بوس کے مقابلے میں گاندھی کے امیدوار پٹابہی سیتارامباس جنہیں یہ اعتراف کرنا پڑا بھگت سنگھ‘ ماتما گاندھی سے کم مقبول نہیں تھے۔ یہ چوبیس سال سے کم عمر آدمی کے لئے کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی جسے عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے چھ (6)سال ہوئے ہوں۔ سزائے موت سنائے جانے کے بعد جے دیو کپور نے بھگت سنگھ سے پوچھا ’کیا انہیں اپنی جوانمرگی پر افسوس ہے‘ بھگت سنگھ سوال سن کر پہلے تو ہنسے پھر سنجیدگی سے جواب دیا’’انقلاب کے راستے پر قدم رکھتے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ کیا میں انقلاب زندہ باد کے نعرے کو اپنی جان دیتے ہوئے ملک بھر میں پھیلا سکوں گا، کوٹھڑی کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے میں کروڑوں لوگوں کے نعرے سن رہاہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا نعرہ سامراج پر حملہ آور ہوگا اور آزادی کی جدوجہد کی تکمیل تک قوت محرکہ ثابت ہوگا۔ اس مختصر سی زندگی کی اس سے زیادہ کیا قیمت مانگتا‘‘۔

شیوورما ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جو جولائی 1920میں پیش آیا: بھگت سنگھ عدالتی کاروائی پر بات چیت کرنے کے بہانے لاہور سینٹرل جیل سے بریل جیل آئے۔ ہم لوگ مذاق میں ایک دوسرے کے خلاف فیصلے سنانے لگے سوائے بھگت سنگھ اور راج گرو کے جن کے بارے میں جانتے ہوئے کہ انہیں تو پھانسی ہوگی۔ تب بھگت سنگھ نے کہا ہم حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ہماری سزاہوگی ’’گردن سے لٹادیے جائیں جب تک ہماری موت نہ واقع ہوجائے۔ اس دن وہ ’’فارم‘‘ میں تھے۔ بات دھیمے لہجے میں کررہے تھے۔ یہ ان کا اندازہ تھا ۔ دکھاوا ان کی عادت نہیں تھی۔ یہ شاید ان کی موت بھی تھی۔ اس کے بعد وہ بھگت سنگھ کو اپنے الفاظ بیان کرتے ہیں:’’یہ وطن سے محبت کرنے والے کے لیے سب سے بڑا انعام ہے اور مجھے فخر ہے میں یہ انعام پانے والا ہوں۔ وہ مجھے مارسکتے ہیں لیکن میرے نظریات کو نہیں مارسکتے۔ وہ میرے جسم کو کچل سکتے ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ میری روح کو کچل سکیں۔ میرے نظریات ایک بلا کی طرح ہمیں غلام بنانے والے برطانویوں کا پیچھا کریں گے یہاں تک کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔۔۔‘‘۔

پُرجوش اندا ز میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھی:’’مردہ بھگت سنگھ غلام بنانے والے برطانویوں کے لیے زندہ بھگت سنگھ سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ مجھے پھانسی چڑھانے کے بعد میرے انقلابی نظریات کی خوشبو ہماری پیاری سرزمین کی فضا میں جاری وساری رہے گی۔ میں نوجوانوں کو سست کردوں گا (آمادہ کروں گا) آزادی اور انقلاب کے لیے اور پھر یہ برطانوی سامراجیوں کی تباہی کو قریب تر لے آئے گی۔ یہ میرا پختہ یقین ہے۔جس بے چینی کے ساتھ اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب میں اپنی خدمات اور لوگوں سے محبت کے صلے میں یہ سب سے بڑا انعام پاؤں گا‘‘۔

شیوورما بھگت سنگھ کی تحریروں کا تعارف ان الفاظ پر ختم کرتا ہیں:

’’بھگت سچ کہتے تھے۔ روح کبھی نہیں مرتی اور یہ اس وقت بھی نہیں مری‘‘۔

حوالہ:
(ارتقا۔ شمارہ نمبر 44۔ تحریر چمن لال۔ ترجمہ شفیق احمد شفیق‘ واحد بشیر۔ صفحہ 84-109
(ارتقا۔ ترقی پسند فکر کا علمی و ادبی کتابی سلسلہ ہے۔)