بلوچستان میں لاپتہ افراد کی لواحقین کا بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

124

3532 دن کی طویل بھوک ہڑتالی کیمپ میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کر کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3532 دن مکمل ہوگئے، لاپتہ عبدالحئی کرد اور شمس بلوچ کے لواحقین کی کیمپ آمد –

کیمپ آئے وفد سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی فورسز کے جانب سے ضلع خضدار کے علاقے گریشہ اور گرد و نواح کے علاقوں میں آپریشن تیزی سے جاری ہے اور اب تک 3 افراد کو فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے جنکی شناخت اب تک نہیں ہوسکی ہے اس کے علاوہ فورسز کی بڑی تعداد علاقے میں موجود ہے اور عام آبادی کو تشدد کا نشانہ بناکر ہراساں کررہے ہیں –

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ جنیوا میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیو کے جائزہ اجلاس میں امریکہ کے جانب سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ کے خدشات اور قانون کے باجود بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرکے پھر دوران حراست تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرکے لاشیں پھینک کر انسانی حقوق کے قانون کے خلاف ورزی کررہا ہے –

اس موقعے پر مچھ بولان سے ایک سال قبل لاپتہ ہونے والے عبدالحئی کرد کے ہمشیرہ کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو ایک سال قبل مچھ کے علاقے بولان سے فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا اس کے بعد میرے بھائی کا پتا نہیں چل سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کا کسی تنظیم سے تعلق نہیں تھا وہ کسی سرگرمی کا حصہ نہیں رہے ہیں –

27 مارچ 2015 کو لاپتہ ہونے والے شمس بلوچ کی ہمشیرہ بھی لاپتہ افراد کے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

شمس بلوچ کے ہمشیرہ نے صوبائی حکومت اور عسکری اداروں سے اپیل کی ہے کہ ان کے بھائی کو بازیاب کیا جائے اگر ان پر کوئی جرم ہے تو قانونی کارروائی کرکے اسے عدالت میں پیش کیا جائے –