کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو 3510 دن مکمل

142

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کےمطالبہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3510 دن مکمل ہوگئے جبکہ علیزہ بلوچ اور پروگریسیو یوتھ الائنس کے رہنما نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

پروگریسیو یوتھ الائنس کے رہنما کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کئی سالوں سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومتی نمائندگان ان کی تعداد کو تھوڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جبکہ حکومتی نمائندگان کو لواحقین کیساتھ اپنا رویہ بہتر کرنا چاہیئے اور ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان افراد کو عدالتوں میں پیش کیا گیا جائے اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں پاکستان کے آئین کے مطابق سزا دی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کئی سالوں سے کُرب میں مبتلا ہے ان کے پیاروں کو منظر عام پر لاکر انہیں اس درد سے نجات دلائی جائے اور ہم اس عزم کو دہراتے ہیں کہ پروگریسیو یوتھ الائنس ماما قدیر سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین کا اس تحریک میں ساتھ دیتی رہیگی۔

لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجتہی کرنے والی علیزہ بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم لاپتہ افراد کے لواحقین کے دکھ درد میں ہمراہ ہے اور میں مطالبہ کرتی ہوں کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے کیونکہ عدالت کے علاوہ کسی ادارے کو کسی شخص کو اس طرح سزا دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے عزت دار بلوچ خوانین سڑکوں پر بیٹھے سردی، بارش اور ہر طرح کے حالات میں پریشانی کے عالم میں احتجاج پر بیٹھے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں لہٰذا لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ ایک باغیرت اور باضمیر قوم ہے، بلوچ قوم پاکستانی حکمرانوں کو قاتل سمجھتا ہے اس کے فورسز سے امداد کی وصولی کو قومی توہین سمجھتی ہے اور علاج معالجے کے نام پر لگائے کیمپس کو اپنی موت سمجھتی ہے۔ بلوچستان میں فورسز کی تعینائی لوگوں کی بحالی نہیں بلکہ اپنی رٹ دوبارہ قائم کرنے کی کوشش ہے اور ساتھ ہی دنیا کو دکھانے کے لیے کہ فورسز لوگوں کی حفاظت کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یقیناً ہمارے پُرامن جدوجہد کو کاونٹر کرنے کی جتنے ٹولز ہیں ان میں سے ایک انتہا پسندوں کا استعمال اور فروغ شامل ہے۔ بلوچ کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزارنے کے لیے قوم، قبیلہ یا مذہب اور فرقوں کے نام پر تقسیم کرنے کیساتھ انتہا پسندوں کی تمام ترکوششیں اور حربے بلوچوں کے سیکولر اور لبرل تشخص کے باعث زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ بلوچ ماں بہنیں آج شوقیہ جدوجہد نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اپنی شعوری پختگی کی وجہ سے اس پرامن جدوجہد کو اپنی مجبوری اور فرض سمجھ کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بلوچ ماں بہنوں نے وقت کی پکار پر لبیک کہاں ہے اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب راہوں کا انتخاب شعوری حوالے سے کیا جائے تو سفر کے مشکلات لطف میں بدل جاتی ہے اور آج لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جہد کرنے کے والوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔