کوئٹہ : بی این پی کی جانب سے تاریخی کردار کمسن شہید یاسمین کی برسی منائی گئی

333

بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے شہدائے جیونی کی برسی کے مناسبت پر بی این پی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا ۔ ریفرنس کی صدارت شہداء کے تصویر سے کرائی گئی جبکہ مہمان خاص پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، اعزازی مہمانان میں پارٹی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ اور مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری تھے ۔ شہدائے جیونی کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک منٹ کھڑے ہو کر خاموشی اختیار کی گئی ۔

ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی قائمقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری ، ضلعی جنرل سیکرٹری آغا خالد شاہ دلسوز ، ضلعی نائب صدر طاہر شاہوانی ایڈووکیٹ و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے شہدائے جیونی کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1986ء کو گوادر کے علاقے جیونی کے شہریوں نے پینے کے صاف پانی کے حصول کے لئے ایک پرامن احتجاجی ریلی نکالی جو مختلف شاہراہوں پر گشت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگئی ، مظاہرین میں 11سالہ یاسمین بلوچ بھی شامل تھیں ۔ اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیونی کے شہریوں پر فائرنگ کیا جس کے نتیجے میں 11 سالہ یاسمین بلوچ شہید ہوگئی اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے ، انتظامیہ نے مظاہرین کو پانی فراہمی کی سیاسی ، آئینی ، جمہوری مطالبے کو تسلیم کرنے کی بجائے طاقت کے زور پر ریلی کو منتشر کیا اور نہتے یاسمین بلوچ کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا اور یہ ثابت کیا کہ انتظامیہ اور حکمران گوادر کے شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے مخلص نہیں ہیں ان کی نظریں گوادر کے ساحل و سائل پر مرکوز ہے اور آج بھی گواد پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں لیکن وہاں کی عوام پانی سمیت دیگر ضروریات زندگی سے یکسر محروم ہیں جو حکمرانوں کی نام نہاد ترقی کے دعوؤں کی برعکس ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کے بزرگ قائد سردار عطاء اللہ خان مینگل گزشتہ کئی عشروں سے گوادر اور مکران کی ترقی کو یہاں کی عوام کو اقلیت میں بدلنے اور وسائل پر دیگر قوتوں کی قبضے جمانے کی پالیسیوں کا تسلسل سمجھتے ہیں لیکن اس وقت بلوچ بزرگ قائد کے اس اصولی موقف کو اہمیت نہیں دی گئی اور یہ کہا گیا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل مکران کی ترقی کے مخالف ہے لیکن آج وقت اور حالات نے یہ ثابت کردیا کہ مکران کے باشعور عوام ہی وہاں پر ہونے والے میگا منصوبوں پر اپنے شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں ۔ ہم ترقی کی ہر گز مخالف نہیں ہیں ۔ 21 ویں صدی جو کہ ترقی و خوشحالی ، تعلیم ، روزگار سے کو ئی بھی باشعور انسان نظر انداز نہیں کرتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاریخی بحر بلوچ دنیا کی نظریں اس پر لگی ہیں لیکن وہاں کی عوام پینے پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور وہاں بھاری تعداد میں باہر سے لوگوں کو آباد کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے مقامی بلوچ اقلیت میں تبدیل اور لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکیوں کو آبادکاری اور سرمایہ کاری میں شریک کرنے سے گوادر میں ڈیموگرافک تبدیلی رونما ہوگی ۔ اس تبدیلی کو روکنے کے لئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے دنیا میں مقامی لوگوں کی رائے کو اولیت دی جاتی ہے جس کا رجحان یہاں دیکھنے میں نہیں آرہا اور یہاں اس کے برعکس گوادر و بلوچستان کے مقامی لوگوں کو اس سرمایہ کاری میں شریک کئے بغیر تمام فیصلے کئے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں میں احساس محرومی ، پسماندگی ، غربت جیسے رجحانات سے پروان چڑھا ہے اور حکمرانوں نے کبھی بھی یہاں کے لوگوں کے جائز خدشات کو سننے بغیر نظر انداز کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کا ہمیشہ سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی سرمایہ کاری اور میگا منصوبوں میں مقامی افراد کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کیا جائے ۔ بی این پی شہداء کے ارمانوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے اور شہداء کی عظیم قربانیاں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔